حفاظت کے لئے ایک خاص انتظام کردیا گیا۔
کہ اﷲ عزوجل نے خود قرآن پاک میں اعلان فرمایا کہ: ’’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون‘‘ کے مطابق اس کامل واکمل دین کی حفاظت کا ذمہ لے لیا اور اس باطنی نظام کے ساتھ ظاہری نظام کا بھی اہتمام فرمایا کہ ہر دور میں کچھ ایسے بندگان پیدا ہوتے رہیں۔ جن کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دین کی خاص فہم وبصیرت عطا ہو جس کی وجہ سے اسلام اور غیر اسلام سنت وبدعت کے درمیان امتیازی لکیر کھینچ سکیں اور اس کے ساتھ دین کی حفاظت کا خاص داعیہ بھی اﷲ تعالیٰ کی طر ف سے ان کے دلوں میں ڈالا جائے۔ اور اس راہ میں ایسی عزیمت بھی ان کو عطا فرمائی جائے کہ ناموافق سے ناموافق حالات میں بھی وہ اس قسم کے ہر فتنہ کے مقابلہ میں سینہ سپر ہوجائیں۔ اور دین حق کے چشمہ صافی میں الحادو گمراہی کی کوئی آمیزش نہ ہونے دیں۔ اور امت کے عقائد واعمال میں جب کوئی فساد پیدا ہو یا غفلت اور بے دینی کا غلبہ ہو تو خاتم النبیین ﷺ کے ایک وفادار جانثار لشکری کی طرح وہ اس کی بیخ کنی کے لئے اپنی پوری طاقت کے ساتھ جدوجہد کریں۔ اور کوئی لالچ نہ کوئی خوف ان کے قدم روک سکے۔
اﷲ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت کے لئے اس ضرورت کابھی اہتمام فرمایا اور اس کے آخری رسولﷺ نے مختلف موقعوں پر حکمت الٰہی کے اس فیصلہ کا اعلان فرمایا کہ:
’’اﷲ تعالیٰ میری امت میں قیامت تک ایسے لوگ پیدا کرتا رہے گا جو دین کی امانت کے حامل وامین اور محافظ ہوں گے۔ وہ اہل افراط وتفریط کی تحریفات سے دین کو محفوظ رکھیں گے۔ اور اس آخری دین کو بالکل اصلی شکل میں امت کے سامنے پیش کرتے رہیں گے۔ اور اس میں نئی روح پھونکتے رہیں گے۔ اس کام کا اصلاحی عنوان تجدید دین ہے۔ اور اﷲ تعالیٰ اپنے جن بندوں سے یہ کام لے وہی مجددین ہیں۔‘‘
چونکہ آنحضرتﷺ خاتم النبیین ہیں۔ آپﷺ کے بعد کسی کو نبوت ملنے والی نہیں۔ لہٰذا آپﷺ کی شریعت کے قیامت تک محفو ظ رہنے کے انتظامات بھی قدرت کاملہ کی طرف سے بیش از بیش کئے گئے اور امت کو ان انتظامات سے بطور پیش گوئی کے آگاہ کرکے مطمئن کردیا گیا۔ بعض اہم انتظامات کی خبر قرآن مجید میں ہے اور بعض کی احادیث صحیحہ میں۔ چنانچہ ہر صدی میں مجدد کا ہونا بھی انہیں انتظامات کے سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ جس کا تذکرہ احادیث صحیحہ میں ہے۔ بعض علماء اس بات کے قائل ہیں کہ ایک صدی میں ایک مجدد ہوتا ہے۔ مگر یہ بات صحیح نہیں۔ مجدد کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کو اپنے مجدد ہونے کا علم ہو۔