دوسرے میرے جیسے صادق دوست ہیں۔ جو نیک نیتی سے آپ کی غلطی کو ظاہر کر دیتے ہیں اور محبت سے آپ کے افعال پر نکتہ چینی کر کے آپ کی عقل کو روشن کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ناعاقبت اندیشوں سے بگڑے ہوئے آپ کے اخلاق کو جادۂ استقامت پر لائیں۔ یہ دوست نہایت عزیز اور کبریت احمر کا حکم رکھتے ہیں۔ مجھے کسی طرح یہ منظور نہیں کہ آپ سے رنجش بے لطفی کی نوبت پہنچے۔ آپ پہلے ہی مرحلہ میں بھگوڑے ہوگئے۔ ابھی تو صرف میدان مناظرہ میں قدم ہی رکھا ہے۔ اگر آپ کو مناظرہ سے ایسی ہی گھبراہٹ ہونے لگی تو خدا حافظ۔ بالآخر خاموش ہو جاؤں گا۔ لیکن خدا سے عرض کر دوں گا۔ ’’رب انی دعوت قومی لیلا ونہاراً فلم یزدہم دعائی الافرارا‘‘ ہماری یہ صلاح اگر مفید ہو تو مانییٔ ورنہ آپ جانییٔ ’’وما علینا الا البلاغ فاعتبروا یا اولی الابصار‘‘
عرق نشستہ زپندم رخ نکوے ترا
زمن مرنج کہ مے خواہم آبروے ترا
مخفی نہ رہے کہ مرزاقادیانی کے مفصل عقائد فاسدہ کے تحقیقی جوابات میں حقیر نے چہار حصوں میں براہین عقلیہ ونقلیہ سے کتاب ’’غایت المقصود‘‘ لکھ دی ہے۔ جس کا جواب آج تک پانچ برس میں ان سے ممکن نہ ہوسکا۔ رسالہ ہذا میں حضرت امام حسینؓ کا انبیاء سلف سے تقابل کر کے صرف مرزاقادیانی کے دعویٰ افضلیت کا جواب دیا جاوے گا۔ ’’بعونہ وصونہ تبارک وتعالیٰ وہہنا اشرع فی المقصود بعون اﷲ المعبود‘‘
مقدمہ
یہ مطلب اظہر من الشمس وابین من الامس ہے کہ شہزادہ کونین حضرت امام ابی عبداﷲ الحسینؓ فداہ روحی کی شان اعلیٰ اور ارفع ہے کہ ان کا کسی صفت میں مرزاقادیانی سے مقابلہ کیا جائے۔ بلکہ آنجناب کے غلام پر بھی مرزاقادیانی کو فضیلت دینے میں اہل عرفان کو شرم دامنگیر ہوتی ہے۔ کیونکہ دو شخصوں کے مقابلہ میں ایک کی فضیلت دوسرے پر اس وقت ہوسکتی ہے جب ایک شئے ان دو شخصوں میں مشترک ہو۔ جیسے دو عالم، چونکہ علم ان دونوں میں مشترک ہے۔ لہٰذا کہہ سکتے ہیں کہ ایک میں زیادہ ہے، بہ نسبت دوسرے کے۔ اسی کے واسطے افضل التفضیل موضوع ہے بخلاف اس کے کہ مشترک دو شخصوں میں نہ ہو۔ بلکہ مختلف صفتیں دونوں میں ہوں۔ اس وقت تفضیل ایک کی دوسرے پر جائز نہیں ہے۔ کیونکہ وہ تقابل درست نہیں۔ مثلاً کسی شریف کے بارے میں کہیں کہ فلاں چمار سے وہ افضل ہے تو یہ فضیلت اس کی نہیں۔ بلکہ انتہاء درجہ کی مذمت