مصنف کے تحریر کردہ الہام سے بقول مرزا قادیانی اﷲ کی طرف سے صرف مجدد ہونے کی خبر نہ دی گئی تو مرزا غلام احمد نے ’’کھڑے ہونے کی جگہ مل جائے تو بیٹھنے کی جگہ خود بنالوں گا۔‘‘ کے مصداق مجدد کے ساتھ نبوت کا کافرانہ دعویٰ کردیا۔
بات مجدد تک رہتی تو شاید امت مسلمہ میں اتنے جوش وخروش کا مظاہرہ دیکھنے میں نہ آتا۔ لیکن قادیانی نے دعویٰ نبوت کرکے قرآن پاک اور ارشادات نبویﷺ اور اجماع امت کا انکار کرکے صریح کفر کو اختیار کرلیا تو پھر جب مسلمان ہی نہ رہا تو مجدد، محدث اور ولی کیسا؟ اور دعویٰ نبوت جو تقریباً ۱۹۰۰ء کے بعد کیا گیا۔ اس سے پہلے خود مرزا غلام احمد آنحضرتﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کرنے والے کو کافر اور مسلیمہ کذاب کا بھائی لکھتا رہا۔ جبکہ بقول قادیانی کذاب کے وحی کا آغاز ۱۸۷۶ء میں سیالکوٹ ملازمت کے دوران شروع ہوچکا تھا۔ وحی والہام جو بقول مرزا کے اﷲ کی طرف سے ہوا تو ۱۹۰۰ء تک ہوئی ۳۴ سال موسلا دھار بارش کی طرح وحی کرنے والے نے بھی مرزا قادیانی کو آگاہ نہ کیا کہ آگے چل کر تو خود اپنے تحریر کردہ احکام کے جال میں پھنس جائے گا۔ واقعتاً ’’دروغ گو را حافظہ نہ باشد‘‘ کے مصداق ۱۹۰۲ء تک جسے یہ خود ساختہ حامل وحی اور الہام کا دعویدار کفر سمجھتا رہا اسے اسلام سمجھنے لگ گیا۔ طے شدہ بات ہے کفر بہرحال کفر ہی رہتا ہے۔ کسی کے سمجھنے سے اسلام نہیں بنتا۔ فرعون ونمرود کو کچھ بدنصیب اگر الٰہ سمجھ بیٹھیں تو وہ الٰہ نہیں بنیں گے۔ صرف سمجھنے والے کافر ہوئے۔ زہر زہر ہے اس کو تریاق کہہ دینے سے اس کی حقیقت نہیں بدلتی۔ ازاں بعد دعویٰ نبوت ورسالت میں بھی کیا آیات قرآنی کو اپنے متعلق چسپاں کرنے کی کوشش کی گئی۔ نہ ماننے والوں کو کافر وغیرہ لکھا گیا۔
غیر احمدیوں کے بچوں تک کے جنازے پڑھنے حرام قرار دئیے گئے بلکہ خود مرزا نے اپنے بیٹے فضل احمد کا جنازہ نہ پڑھا۔ اس لئے کہ اس عکرمہ ؓ جیسے خو ش نصیب نے ابو جہل جیسے باپ کو نہیں مانا تھا۔ اور مشہور بات ہے۔کہ ظفر اﷲ نے باوجود پاکستان کے وزیر خارجہ ہونے کے بانی پاکستان قائد اعظمؒ کے جنازے میں شرکت نہیں کی بلکہ علیحدہ کھڑا رہا۔ اور پوچھنے پر صاف صاف کہہ دیا کہ مسلمان حکومت کا کافر وزیر مجھے سمجھ لو یا کافر حکومت کا مسلمان وزیر مجھے سمجھ لو۔
میں نے ایک پمفلٹ ۱۹۷۴ء میں حافظ آباد کے ایک منتخب ممبر قومی اسمبلی کے لئے لکھا تھا۔ تاکہ اسمبلی میں اسلامیان علاقہ حافظ آباد کی نمائندگی کرتے ہوئے مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے مطالبہ کی حمایت کرے۔ اس مختصر پمفلٹ میں تصویر کے دونوں رخ دکھائے گئے۔ مرزا پہلے کیا کہتا رہا اور بعد میں ہندو اور انگریز کی شہہ پر کیا کچھ کر گزرا۔