ان کے عقیدے سے پھر گئے۔ ان پر بڑے گرما گرمی سے رو پرور ہونے لگے۔ تمام دنیا میں ان کے دجال ہونے کا اور کفر کا فتویٰ شائع ہوگیا۔ اس پر بھی آپ لوگوں کو احساس نہ ہو تو میرا کیا اجارہ ہے۔ عقل سلیم آپ لوگ سے صلب کر لی گئی ہے اور بعینہ فونو گرام بن گئے۔ جو کچھ قادیانی ترانہ آپ کے دلوں کے رکارڈ میں بھر دیا گیا ہے وہی آواز نکلتی ہے۔
اب بھی چیلو! توبہ کا دروازہ اب تک کھلا ہوا ہے۔ موت کی گرم بازاری انواع اقسام سے مرزاقادیانی کے قدم نحس کی بدولت تمام دنیا میں ’’ان بطش ربک لشدید‘‘ کی منادی ہو چکی ہے۔ مبارک وہ لوگ ہیں جو اس منادی پر کان دھریں اور اپنے سچے نبی خاتم المرسلین حضرت سیدنا محمد مصطفیٰﷺ کی دل سے پیروی کر کے شیطانی عقائد باطلہ سے اپنے کو بچا ویں اور اس کو غور سے تخلیہ میں تجویز کریں کہ اس تیرہ سو برس میں آج تک کتنے جھوٹے مہدی اور مسیح پیدا ہوتے گئے۔ مگر اسلام کا کیا بگڑا۔ سوائے اس کے کہ معدودہ چند لوگ اسلام کی فہرست سے خارج ہوگئے اور ان کی جگہ درک اسفل مقرر ہوگئی اور مشیت الٰہی نے اپنی حکمت بالغہ سے ان کو حقیقی اسلام اور اتباع رسالت مصطفوی سے محروم رکھا۔
میرے پیارے عزیز ملک منصور! بقول ارشاد مرزاقادیانی کے (کہ کسی قدر مرارت بھی لازمۂ حق گوئی ہے) جابجا ہم نے محض نیک نیتی سے واسطے افادہ عوام وخواص کے براہ بہی خواہی مرزائیان کے واقعہ صحیحہ کا اعادہ کیا ہے اور مرزاقادیانی کی منہاج نبوت ومہدویت کا اظہار کیا ہے۔ خدا کے لئے خفا نہ ہونا۔ بلکہ تخلیہ میں خدا کو حاضر وناظر جان کر اس رسالہ کو سامنے رکھ کر ذرا غور کیجئے اور ان واقعات کو پیش نظر رکھ کر خود ہی دل میں فیصلہ کر لیجئے کہ جس شخص کے افعال واقوال باہم ایسے متضاد ہوں (مسیحیت اور مہدویت تو درکنار) بھلا کبھی وہ ہم چشموں میں اپنی سوسائٹی کے قابل اعتبار ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ واﷲ! ہرگز نہیں۔ ثم باﷲ ہر گز نہیں۔ ضرور آپ بھی دل میں بلا تکلف اعتراف کیجئے گا اور آپ کا دل گواہی دے گا کہ فیصلہ آسمانی واقعی آسمانی فیصلہ ہے۔ اس سے انکار کرنے کی ہرگز جرأت نہیں ہوسکتی۔ لیکن پھر بھی آپ کو یہاں شیطانی وسواس یا دوسرے لفظوں میں دنیاوی حجاب کا روڑا صراط مستقیم سے روک رہا ہے۔ بڑے بہادر اور دانشمند وہ ہیں کہ اس مقام پر خدا کی سچی توحید اور رسالت مصطفوی کی مضبوط ڈوری کو پکڑ لیں اور شیطانی وسواس اور بے جا حجاب کی مزاحمت کر کے صدق دل سے توبہ کر کے اس قدوس ذوالجلال کے آگے سر عجز ونیاز کو جھکا دیں کہ ایسی سرافگندگی اس کے حضور میں باعث قبولیت ہوجاتی ہے۔