قولہ… یہ خدائی سلسلہ ہے اور وہی اس کی مدد کرتا ہے۔ اگر انسان کا بنایا ہوا ہوتا تو مدتوں درہم برہم ہوجاتا۔
اقول… میاں! یہ کیوں نہیں کہتے کہ یہ مرزائی سلسلہ ہے جو خود۱؎ خدا، خدا کا باپ۲؎، خدا کا بیٹا۳؎ ہونے کا دعویدار ہے۔ جس کی تفصیل پچھلے صفحہ میں بخوبی کر دی گئی ہے۔ ’’نعوذ باﷲ من شرور انفسہم ومن سیات اعمالہم‘‘
لو مجھ سے سنو! یہ تینوں الہام تو مرزاقادیانی پر ہوئے تھے۔ مگر تفسیر اس کی اس وقت ان کے ذہن میں نہ آئی تھی۔ اب مجھ کو اس موفق حقیقی نے اس مرزائیہ تثلیث کی حقیقت کھولنے کی توفیق بخشی ہے۔ مگر یار خفانہ ہونا۔ ہر چند بات کڑوی ہے۔ مگر علاج بالخاصہ ہے۔ یہ تو ان تینوں جملوں کی تفسیر ہوئی۔ مگر حقیقت میں مرزاقادیانی کی یہ انوکھی تثلیث ہے۔ عیسائی معروف تثلیث میں باپ اور بیٹا اور روح القدس مل کر تثلیث پوری ہوتی ہے اور مرزاقادیانی کی نئی تثلیث میں باپ اور بیٹا اور ان کے خدا کا باپ بھی شریک تثلیث ہے۔
میاں صاحبزادے! اب سمجھئے یہ ہے سلسلہ مرزائیہ کی تثلیث اور اس کا درہم۴؎ وبرہم ہونا۔ اگر آپ لوگوں کو معلوم نہ ہو تو کور باطنی کا علاج کیجئے۔ مرزاقادیانی کی حیات ہی سے ان کا کارخانہ فیل کر گیا۔ دوکانداری ٹھنڈی پڑ گئی۔ پبلک پر ان کا فریب کھل گیا۔ خود ہزاروں مرید خاص
۱؎ خود خدا جیسا مرزاقادیانی کو کشف میں ظاہر ہوا تھا۔ (تفسیر) یعنی مرزاکرشن چندر ہوگئے اور اس میں روپ دھارن کیا۔
۲؎ خدا کا باپ (یعنی ہندوؤں کے موافق) مرزاقادیانی نے براہ روپ میں بھی جلوہ گری فرمائی۔
۳؎ خدا کا بیٹا (تفسیر) انہیں ہندوؤں کی رامائن کے رو سے آخر زمانہ میں کلنکی اوتار لے کر آئے۔ جس کو وہ مہدی یا مسیح خیال کرتے ہیں۔
۴؎ ؎
غیرت حق، مرزاقادیانی کے ہوئی جب سدراہ
خود بقول مرزاجو تھا شریر وپر گناہ
مفتری صادق کے آگے مر گیا ہو کر تباہ
مفتری ہوتا ہے آخر اس جہان میں روسیاہ
جلد تر ہوتا ہے برہم افتراء کا کاروبار
یہ مرزاقادیانی کا شعر ہے۔ اس پر مصرعہ لگایا گیا ہے، کیا پھڑکتا ہوا مضمون ہے اور کیسا چسپاں ہے۔