پوری نہ ہوئی اور میں مر گیا تو ہر بد سے بد تر ٹھہروں گا۔
پھر اب خود بقول ان کے مرزاقادیانی کو بدترین مخلوق سمجھنے میں آپ کو کیا عذر ہے۔ کیونکہ زمانہ ہوا کہ مرزاقادیانی مر بھی گئے اور ان کا خصم وڈبل رقیب سلطان محمد بیگ بفضلہ تعالیٰ صحیح وسالم موجود ہے۔ یہ ہے فیصلہ آسمانی۔ غیرت ہو تو توبہ کر کے اب بھی مسلمان ہو جاؤ۔ ورنہ تم جانو اور تمہارے اعمال۔ بھلا یہ تو بتاؤ کہ محمدی بیگم سے نکاح ہونا مرزاقادیانی کا اور اس سے بشیرالدولہ، عالم کباب، عمانویل کا پیدا ہونا۔ جس کی تعریف میں مرزاقادیانی نے مجذوبوں کا سابڑ لگایا ہے۔ ’’کان اﷲ نزل من السمائ‘‘ بھی الہامی جملہ زیب رقم فرمایا ہے۔ یہ وعدہ تھا یا وعید۔ سچ کہنا۔ کیونکہ ابھی تک مرزاقادیانی کو اس کی حسرت باقی ہے ؎
نکاح آسمانی ہو مگر بیوی نہ ہاتھ آئے
رہے گی حسرت دیدار تا روز جزا باقی
مسٹر آتھم وڈاکٹر عبدالحکیم ومولوی ثناء اﷲ امرتسری کے مقابلہ میں جو کچھ پیش گوئیاں مرزاقادیانی کی روز روشن کی طرح تمام دنیا پر جھوٹ ثابت ہوچکی ہیں ان سب کی شرح اور پوری کیفیت رسالہ ’’مسیح کاذب‘‘ میں راقم نے پبلک پر ظاہر کر دیا ہے۔ (جس صاحب کو تفصیل درکار ہو وہ رسالہ ملاحظہ کر لیں) ص۲۶ میں ہمارے عزیز لکھتے ہیں کہ فیصلہ آسمانی میں حضرت مؤلف مدظلہ العالی نے لکھا ہے کہ: ’’مرزاقادیانی نے آئینہ کمالات میں بدتہذیبی سے کام لیا۔‘‘ کس قدر کورانہ جھوٹ اور جاہلانہ افتراء ہے۔ میں پبلک کو مخاطب کر کے التماس کرتا ہوں کہ رسالہ فیصلہ آسمانی تمام شائع ہوچکی ہے اور قریباً یہ رسالہ ہر شہروں میں مشہور ہوچکا ہے۔ بھلا مہربانی فرماکر ذرا ملاحظہ کر کے آپ لوگ اس جاہل طالب العلم کے جہل کو جانچ لیویں کہ اس رسالہ میں حضرت مؤلف نے کسی جگہ آئینہ کمالات کا نام بھی لکھا ہے یا نہیں۔ شاید ان پر بھی مرزاقادیانی کی طرح جھوٹے الہام کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ بقول شخصے مچھلی کے جائے کن تیرائے۔ یہ پنجابی مثل ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ مچھلی کے بچے انڈوں سے نکلتے ہی تیرنے کا الہام ساتھ لئے آتے ہیں۔ اسی طرح سے مرزاقادیانی کے روحانی صاحبزادگان بھی ہیں ؎
ابھی فتنہ ہے کوئی دن میں قیامت ہوگا
اگرچہ یہ واقعہ بالکل صحیح ہے۔ مطلق جھوٹ یا افتراء نہیں ہے۔ اب میں اس کو پوری