ٹھوکریں کھاتے تھے۔ کاش یہ عیب نہ ہوتا تو آدمی معقول تھے۔ میاں صاحبزادے! یہ ہے معقولیت کی تحقیق اور منصفانہ رائے اور آزاد خیال۔
اب آپ مخالفین کا ثبوت دیجئے۔ جن کا ذکر آپ نے اپنے منہ سے نکالا ہے کہ مرزاقادیانی کو بڑا عالم فاضل سلطان القلم سمجھتے تھے۔ جب آپ مخالفین کی فہرست اور ثبوت ظاہر کیجئے گا تو میں بھی بذریعہ اخبارات آپ کے موافقین کی دستخطی تحریریں شائع کروں گا۔ بلکہ اس کو رجسٹری کرا کے اگر آپ توبہ کی شرط کریں تو حاضر ہوں۔
مرزائیوں کی عادت ہوگئی ہے کہ جب کسی نے مرزقادیانی کی جھوٹی پیش گوئی کو ظاہر کیا تو اپنے جاہل بھائیوں کے اطمینان اور ڈھارس باندھنے کے لئے جھٹ حضرت یونس کا قصہ شروع کر دیا۔ چاہے مرزاقادیانی کے حالات پر چسپاں ہو یا نہ ہو۔ عوام میں تو یہی مشہور کر رکھا ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام کی پیش گوئی بھی (نعوذ باﷲ منہا) ٹل گئی ہے تو مرزاقادیانی کی پیش گوئی کیوں نہ ٹلے۔
سنو سنو بھاگو نہیں! اے عقل کے دشمنو! کور باطنو! جب تمہیں کچھ قرآن کا علم نہیں تو کیوں قرآن دانی کا دعویٰ بے فائدہ کرتے ہو اور بیچارے جاہلوں کو جہنم کا راستہ دکھاتے ہو۔
میاں! کسی آیت یا کسی حدیث سے سلف سے آج تک یہ ہرگز ثابت نہیں ہوا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے یونس علیہ السلام کی قوم کو ہلاک کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ہاں عذاب بھیجنے کا وعدہ تھا اور عذاب آیا اور وعدہ خداوندی سچا ہوگیا۔ جب قوم نے گرویدگی اختیار کی اور ایمان لائے تو عذاب ہٹا دیا گیا۔ بس قرآن مجید اور حدیث شریف سے اسی قدر ثابت ہے۔ بھلا مرزاقادیانی کے آسمانی نکاح والی پیش گوئی سے اس کو کیا تعلق ہوسکتا ہے۔
پھر آگے چل کر لکھتے ہیں کہ: ’’وعدہ نہیں تھا وعید تھا۔‘‘
ملک جی! بلی کے گوہ کی طرح مرزاقادیانی کے الہامی جھوٹ کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اس کی عفونت اور سٹرائند بدبو کہیں چھپ سکتی ہے؟ مرزائی ٹھوکر پر ٹھوکر کھاتے ہیں اور اپنے جھوٹے کردار سے باز نہیں آتے۔ کبھی وعدہ کو وعید بتاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وعید کہہ دینے سے مرزاقادیانی پر جھوٹ کا مقدمہ ڈسمس ہو جائے گا۔ ہرگز نہیں۔ قطع نظر اس بات کے کہ یہ وعدہ ہو یا وعید۔ مرزاقادیانی نے تو اس پیش گوئی کی نسبت یہ قید لگائی تھی کہ یاد رکھو اگر یہ پیش گوئی