لطیفہ
یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ رحمانیوں کا خدا وہ ذات واجب الوجود وحدہ لاشریک ہے جس کی شان یہ ہے۔ ’’ان اﷲ لا یخلف المیعاد‘‘ جیسا کہ عزیز منصور سلمہ نے اپنے رسالہ کے ٹائٹل پرشعر لکھا ہے وہ ٹھیک ہے۔ ہاں شیطانیوں کا خدا اس کا وہم متخیلہ ہے اور ذریات شیاطین کا باپ وہی جھوٹے الہام اپنے مریدوں کے دل میں ہر وقت ٹھونستا رہتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں سورۂ ناس کی آیت شریفہ ’’الذی یوسوس فی صدور الناس‘‘ میں اشارہ ہے اور جو کچھ ایسے وسواس باطلہ سے کوئی شیطانی وعدوں کے مرید مذکور کو بے بصیرتی اور حماقت سے کچھ امید اس کی بندھ جاتی ہے۔ اس واسطے اس کو الہام تو مشہور کر دیتا ہے۔ مگر جھوٹ ہو کر ٹل جایا کرتا ہے۔ جس کو قرآن کریم نے اس مضمون کا ارشاد فرمایا ہے۔ غور سے سنو! ’’یعدہم ویمنّیہم وما یعدہم الشیطن الا غروراً‘‘ یعنی شیطان ان کو (یعنی مرزاقادیانی جیسے کو) وعدہ دیتا ہے اور امیدیں دلاتا ہے۔ حالانکہ شیطان ان سے جو کچھ بھی وعدہ کرتا ہے وہ نرا دھوکا ہی دھوکا ہے۔
اس صفائی سے قرآن کریم کا ارشاد ہورہا ہے اور مرزائی حضرات اس پر توجہ نہیں فرماتے ہیں۔ یہ کیسا غضب خدائے قدوس کے ارشاد پاک کے خلاف ڈھا رہے ہیں اور اپنے ڈھاک کے ۳پتوں پر ضد سے اڑے ہوئے ہیں۔ خدا کے واسطے ایک لمحہ ان امور پر غور صحیح وفکر سلیم کریں۔ آپ سمجھئے یہ گر ہے کہ مرزاقادیانی کی جھوٹی پیش گوئیاں کثرت سے ہوتی گئیں۔ کچھ دو چار شکلیں رمل کی اور ان کے منسوبات کو یاد کر کے زائچہ لکھ سکے تھے اور باقی عقل معاش کے پورے، دہن کے پکے قیافہ اور واقعات شناسی میں بھی اپنے کو یکتائے روز گار جانتے تھے۔ اس لئے طبیون کے قاعدہ کے موافق کچھ موسم کچھ ملک کچھ غلط کا لحاظ کر کے پیش گوئیوں کے گول مول جملے تصنیف فرمایا کرتے تھے۔ اس پر بھی سینکڑوں ہی جھوٹ ان کے تمام ہندوستان میں مشہور ہو چکے۔ یہاں تک کہ خود ان کے موافقین جو صاحب عقل سلیم ہیں جب ان کے مقابلہ میں مرزاقادیانی کا تذکرہ آیا بے ساختہ ان لوگوں نے ایمان کی بات کہی کہ مرزقادیانی میں بھی تو عیب تھا کہ جو کچھ ان کے دل میں آیا اس کو ’’کالوحی منزل من السمائ‘‘ سمجھ لیتے تھے اور اپنی بات کی ناحق ضد میں