کیوں نہ ہو تعلیم کس یونیورسٹی کی ہے؟ جہاں رات دن اسی جھوٹ کی شاگردی ہوتی رہتی ہے۔
کتاب فیصلہ آسمانی کثرت سے شائع ہو چکی ہے۔ ذرا ناظرین ایک نظر ص۱۴۰ کو دیکھ جائیں اور اس عقل کے اندھے کو بھی دکھا کر روشنی کی سلائی کور باطنوں کی آنکھوں میں پھیر دیں تو البتہ بیچارے لڑکے کو سوجھائی دے گا۔
اس قدر واضح طور سے حوالہ دینے پر تو جھوٹ لکھ دیا کہ حوالہ نامعلوم اور خود ملک جی بڑے بے باکی سے لکھتے ہیں کہ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اپنی ایک تصنیف میں فرماتے ہیں۔ ’’یوعد ولا یوفی‘‘
اب کوئی میاں لڑکے سے یہ تو پوچھے کہ حضرت شیخ غوث الاعظمؓ کی تو سینکڑوں تصانیف ہیں۔ تم نے کیوں حوالہ نہ دیا۔
میں نے جانا بیچارے طالب العلم کی آنکھوں پر جہالت کا ایسا گھٹا ٹوپ پردہ پڑا ہوا ہے کہ وہ حوالہ دینے سے عاجز ہے۔ اسی لئے اس قدر پر بس کر دیا کہ: ’’اپنی ایک تصنیف میں فرماتے ہیں۔‘‘
میں مجھ سے سنو تمہیں کیا معلوم کہ کون سی تصنیف میں ہے تم تو بیچارے عربی، فارسی اور اردو سے بھی محض نابلد معلوم ہوتے ہو۔ جبھی تو جوق در جوق ص۱۲ میں اپنے رسالہ کے جوک درجوک لکھا ہے۔ اردو کا بھی املاء درست لکھنا تم کو پہاڑ ہے تو پھر کیوں تصنیف کا بار عظیم اپنے سر پر دھر لیا۔ جس تصنیف کا حوالہ تم دینے سے عاجز رہ گئے میں تم کو بتائے دیتا ہوں۔ وہ شریف تصنیف حضرت غوث الاعظمؒ کی فتوح الغیب ہے۔ یہ گلریزی تمہارے گرو گھنٹال حکیم جی کی ہے۔ جس کو میں بڑے زوروشور سے پبلک میں رد کر کے نہایت جرأت سے کہتا ہوں کہ جو جملہ ’’یوعد ولا یوفی‘‘ کا حوالہ دیا ہے اور عامہ مسلمین کو فریب دیا ہے کہ یہ مقولہ حضرت موصوفؒ کا ہے یہ بالکل غلط ہے۔ اگر اس جملہ مذکورہ کو بغیر تحریف لفظی بعینہ وبلفظہ کوئی مرزائی یا حکیم حضرت سیدنا غوث الاعظمؒ کی تصنیف موصوف میں دکھا دیں تو میں دو سو ان کو انعام دیتا ہوں اور میعاد بھی بہت طویل دیتا ہوں۔ جو آج سے ۶ماہ کی ہے اور اگر یہ جملہ ’’یو۱؎عد ولا یوفی‘‘ بعینہ وبلفظہ ثابت نہ کر سکے تو پھر ان پر سوائے ہزارہ لعنت تصنیف کردہ مرزاقادیانی کے اوپر کیا پہنچ سکتا ہے۔
۱؎ لطف یہ ہے کہ من چیزے دیگر می سرایم وطنبورہ من چیزے دیگر۔ یعنی حکیم تو فرماتے ہیں ’’یعد ولا یوفی‘‘ اور ان کی خوب مرمت کر کے میاں طنبورہ یعنی منصور کہتے ہیں کہ ’’یوعد ولا یوفی‘‘ حالانکہ دونوں ہی غلط، خود غلط، املا غلط، انشاء غلط۔