علوم دینیہ کے خاص علم ادب اور شاعری میں مرجع خاص وعام ہیں۔ ان کے سامنے ایک بلندی سے زیادہ وقعت ان کی نہ تھی۔ بضرورت دنیا عرب سے ہند میں آئے اور مرزاقادیانی سے بھی قادیان میں ملے۔ ضرورت تو ان کو دامنگیر تھی ہی۔ مرزاقادیانی نے اپنے تعلیمانہ مضامین کو ٹوٹی پھوٹی عربی نثر میں ادا کر کے ان سے قصیدہ کی فرمائش کی اور آخر تھے اہل زبان۔ فی البدیہہ سراسری طور پر یہ دو قصیدہ اس نے لکھ دئیے اور رسالدار میجر سید امیر علی شاہ صاحب والی (پانچ سو کی رقم) (جو مرزاقادیانی نے جھوٹ فرزند ہونے کے الہام بشارت دے کر انبٹھا تھا) ان کے قصیدہ کے محنتانہ میں نذر ہوئی ؎
مال حرام بود بہ سوئے حرام رفت
کا مضمون بھی ٹھیک ہوگیا۔ یہ انہیں عرب کی اگال ہے۔ جس کو مرزاقادیانی اپنے سلطان القلمی کا اظہار کر رہے ہیں۔ میاں صاحبزادہ! آپ سمجھئے یہ ہیں مرزاقادیانی کے اعجاز جس کو مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری۔ رسالہ الہامات مرزا کے ص۸۷ نوبت۹۶ بڑی وضاحت سے ہر ہر شعر کی نحوی وصرفی وعروضی غلطیاں نکال کر طبع اوّل پر (پانچ سو روپیہ کا انعام) اور طبع ثانی پر (پورے ہزار کا) اور طبع ثالث ۱۹۰۴ء میں ڈبل انعام دو ہزار روپیہ کا مشتہر کیا اور پانچ برس تک اس کے بعد مرزاقادیانی جیتے رہے۔ مگر انعام پانے کی جرأت نہ کر سکے اور نہ کچھ جواب ہی دے سکے۔ آپ بیچارے عربی سے نابلد اس کو آپ کیا جان سکتے ہیں اور کیونکر پہچان سکتے ہیں۔ مرزاقادیانی کی اور دوسری عبارتیں جو ایک سطری دو سطری خاص ان کی شکم زاد تصنیف ہیں۔ ان سے ان دونوں کتابوں کا مقابلہ وموازنہ کوئی اہل فن ادیب کرے تو بے تردد صاف طور پر مرزاقادیانی کا کرشمہ کھل جاتا ہے اور فسانہ عجائب کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے۔ خیر یہ تو اہل علم کے سمجھنے کی بات ہے۔ آپ بیچارے اس کو نہیں سمجھ سکتے ہیں۔ آپ کو تو ابھی اتنا جغرافیہ جو معمولی مدرسوں میں رائج ہے بھی معلوم نہیں جو صحیح صحیح ملکوں کا نام بھی املاء کر سکیں۔ صحیح عبارت لکھنا تو زیادہ قابلیت کا کام ہے۔ جیسا کہ آپ نے اسی ص۱۹ سطر۹ میں لکھا ہے کہ مرزاقادیانی کی اعجاز المسیح کتاب ملک عرب وشاہم مصر وطوران سب جگہ گئی۔
راقم… بھیا گھبراؤ نہیں۔ ذرا جغرافیہ کے نقشہ میں دیکھ کر بتلاؤ تو کہ طوران کہاں ہے۔ کہیں کوہ طور کے نزدیک تو نہیں؟ کیونکہ تم نے طوران کو شاید اسی کا مشتق سمجھا ہے۔ جبھی تو طائ۱؎ مہملہ سے املا
۱؎ میاں تم کو مؤمن جان کا مصرعہ بھی یاد نہ رہا۔ جو لفظ کو صحیح کرتے :’’ایرانیوںمیں یار ہے تو رانیوں میں ہم‘‘اسی پر اہل تصنیف بننے کا نزلہ اپنے اوپر نازل کر لیا۔ اٰخر الدیہاتی یعنی کوسی کے رہنے والے۔