بات ہے۔ آپ لوگ دل میں تو ضرور اعتراف کریں گے کہ واقعی بڑی غلطی میں پڑے ہوئے ہیں کہ مرزاقادیانی کو سلطان القلم وغیرہ وغیرہ کہا جائے۔ اگرچہ زبان سے کسی شرم ولحاظ اور بیجا مروت سے اس کا اقرار نہ کریں۔ مگر یاد رکھیئے کہ آج دنیا کے چند روزہ شرم ولحاظ کی خاطر اپنا دین خود اپنے ہاتھوں آپ لوگ تباہ کر رہے ہیں۔ جس وقت اس خدائے قدوس مالک یوم الدین کے سامنے آپ کے ہاتھوں میں یہ فرد قرار داد جرم ؎
کہ از بہر دنیا دہد دین بہ باد
دیا جائے گا تو مرزاقادیانی یا خلیفۃ المسیح کوئی کام نہ آویں گے۔ خدا کے واسطے ذرا تو تخلیہ میں دو منٹ ان امور کو سوچئے۔ اب تک وقت باقی ہے۔ میرا آپ پر کچھ زور نہیں ہے۔ صرف وہی اخوت اسلامی یا انسانی ہمدردی رہ رہ کر دل میں ابھارتی ہے کہ اپنے بچھڑے ہوئے بھائیوں کو سختی سے نرمی سے جس طرح ہو سکے بلاؤں وہ جامع المتفرقین اگر چاہے گا تو ملا ہی دے گا۔ وما علینا الا البلاغ!
ص۱۷ میں میرے دوست نے لکھا ہے کہ وفات مسیح کے مسئلہ کے انکار کی وجہ سے لاکھوں مسلمان عیسائی ہوئے۔
یہ نئی تک بندی آپ کی آج سننے میں آئی۔ شاید اس کی رپورٹ آپ کے مسیحی دربار میں بذریعہ ٹیلی گرافک الہامی مسیح کے قادیان کی گورنمنٹ میں پہنچی ہو۔ جو ابھی تک بصیغہ راز کسی پولیٹکل مصالح سے اخبار البدر یا الحکم کے دفتر میں بھی اس کی خبر نہ دی گئی۔ جو ہندوستان کی عام پبلک کے گوش زد ہوتا۔ ورنہ لاکھوں مسلمان عیسائی ہو جائیں اور کسی عیسائی مشن ڈیپارٹمنٹ کو خبر نہ ہو۔ مگر ایک قادیانی طالب العلم کو اس کی پوری پوری آگاہی ہو۔ کیوں نہ ہو۔ اے سبحان اﷲ! میاں صاحبزادے کی دور بلا۔ معلوم ہوتا ہے کہ مرض کا بوس میں کچھ برّا رہے ہیں۔ جلد اپنا علاج کیجئے۔ یہ مہلک عارضہ ہے۔ ایک مختصر علاج تومیں ہمدردانہ ہدیہ کرتا ہوں کہ اپنے جھوٹے مسیح کا پورا نام سیج کے پتے پر لکھ کر ببول کی لکڑی میں جلا کر اپنی ناک میں دھونی لیجئے۔ ایک ہی دفعہ یہ عمل کرنے سے پھر کبھی بدخوابی اور اول فول بکنے کا اثر باقی نہ رہے گا۔ مجرب نسخہ ہے ہر کہ شک آرد (خدا جانے کیا) گردو!
خیر یہ تحقیقی جواب تھا جو لکھا گیا۔ اب الزامی جواب اس جملہ کا آپ کے یہ ہے کہ شاید مفہوم آپ کا اس جملہ سے کہ لاکھوں مسلمان عیسائی ہو گئے۔ یہ ہو کہ آپ لوگ جو بہت سے مسلمان اب حیات مسیح کا انکارکر کے مرزائی مسیحی مذہب ہوگئے۔ اسی کو آپ نے اس جملہ