ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت مصنف مدظلہ العالی پوری خدمت اسلام کی بجالائے۔ جس سے ہزاروں مترددین مذہب کی تشفی ہوگئی اور عیسائیت کے دام تزویر سے مخلصی پائی۔
تو پھر کیا آپ لوگوں کے عقائد کے موافق ایسے جواب دندان شکن اور مسکت کے دینے سے مسیحیت اور مہدویت لازم ہوجاتی ہے۔ نعوذ باﷲ منہا! ایسے ڈھلمل یقین نہ ہوتے تو مرزاقادیانی کو مسیح ہی کیوں مانتے۔
جاہل عیسائیوں اور چند ناتجربہ کار آریوں کے جواب میں باتیں بنا لینی اور جھوٹی پیش گوئی آتھم کی موت کی سنانی اور میعاد ختم ہونے پر ۶؍ستمبر کی پشیمانی مرزاقادیانی کو مبارک ہے۔
سن تو سہی جہان میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
میاں صاحب! آپ کو اتنا بھی تو معلوم نہیں کہ اوپر کے سب رسالے حضرت مؤلف فیصلہ آسمانی کے پرزور قلم کا نتیجہ ہیں۔ جب ہی تو آپ نے لکھا کہ جس وقت عیسائیوں کا مناظرہ ہوا اس وقت حضرت مؤلف فیصلہ آسمانی کہاں چھپے ہوئے تھے۔ کیوں نہیں جواب دیا۔ ذرا مہربانی کر کے اپنے حکیم خلیفۃ المسیح سے پوچھئے اور ان کو ضرور معلوم ہوگا۔ کیونکہ ان کو بھی ہر چند عیسائیوں کے مناظرہ سے کچھ دلچسپی تو ضرور تھی مگر وہ بھی ان پادریوں کے جواب میں سوائے سکوت کے حمایت اسلام کی طرف کسی وجہ سے جرأت نہ کر سکے۔
تو پھر کیا عیسائیوں اور آریوں کا جواب شافی دینا آپ کے نزدیک ملہمانہ شان اور لازمہ مہدویت ومسیحیت ہے؟ استغفراﷲ من ہذا لا باطیل!میاں صاحبزادہ توبہ کیجئے اور مرزاقادیانی کو مسیح بنا کر مہدی مان کر ان کے ماتھے پر کلنگ کا ٹیکا نہ لگائیے۔
اور سنو لالہ اندر من کے اعتراضات واہیہ کا جواب مرزاقادیانی نے دیا یا کسی دوسرے نے ’’خلعت الہنود‘‘ مصنفہ مولانا سید حسن شاہ صاحبؒ کشمیری جس نے اندر من کے دانت کھٹے کر دئیے۔ بڑی وضاحت اور خوبی سے دلائل قاطعہ سے لکھ کر شائع ہوئی ہے۔ جی چاہے تو دیکھ لو اور ساتھ ہی اس کے مولانا مولوی محمد علی صاحب بچھراؤں کی تصنیف بھی ’’صوت اﷲ الجہاد‘‘ کو بھی دیکھ سکو تو دیکھ جاؤ۔ یا حکیم صاحب سے پڑھ جاؤ اور غور سے موازنہ اور مقابلہ فرما کر انصاف کرو کہ اس طرح کا شافی اور مسکت جواب مرزاقادیانی نے کوئی بھی لکھا ہے یاہرگز نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہم کہیں گے کہ گالیاں دینے میں نئی نئی فحش بدزبانی تصنیف کرنے میں جھوٹی شیخی بگھارنے میں۔ ان کو البتہ ید طولیٰ تھا۔ یہ اور بات ہے اور مرد میدان بن کر حریف کو شائستگی سے جواب دینا اور بات