الزغفران الاصفر، عاشق المشک والعنبر۔ حضرت مسیح زمان عیسیٰ دوران حکیم مولوی مرزاغلام احمد قادیانی، مجدد، محدث، مہدی، نبی، رسول ومعاذ اﷲ! بلکہ خود خدا، خدا کے باپ، خدا کے بیٹے، گرمیوں میں بغیر خشخانہ کے زندگی دشوار، بادہ ہائے شربت برف سے مست وسرشار۔
لو اب تمہیں اپنے ایمان سے حضرت سرورکائناتﷺ کے ارشاد کا موازنہ کرو کہ مرزاقادیانی کا طرز عمل ویسا تھا۔ جیسا تم نے ص۱۳ میں لکھا ہے؟ ہر گز نہیں، واﷲ ہرگز نہیں۔ انہیں سب اسباب سے تومیں اور سب ارباب طبع سلیم مرزاقادیانی کا انکار بہزار اصرار کر کے ان کی مخالفت کرنے لگے اور بحمدہ متحقق ہوگیا کہ وہ بڑے پکے دوکاندار تھے اور لطف کہ یہ سب بھید مرزاقادیانی کا کسی غیر احمدی نے نہیں کھولا۔ اجی وہی مخلص احمدی بیس بیس برس کے رفیق خاص اور مریدان بااخلاص جنہوں نے اپنا مال مرزاقادیانی کی دوکانداری کے پیچھے ہزاروں درہزار لٹا دیا اور ذرہ بھی جبین پر شکن نہ لائے۔ ہاں جب حد سے زیادہ مرزاقادیانی بڑھنے لگے اور اپنی نبوت اور مسیحیت بگھارنے لگے تو انہیں لوگوں کو اﷲتعالیٰ نے توفیق، رفیق بخشی کہ مرزاقادیانی کے سب راز نہانی اور الہامات شیطانی اور چرب زبانی کا پورا فوٹو کھینچ کر عالم میں دکھادیا۔ لو مجھ سے ان حضرات بابرکات کے نام بھی سنو۔ جناب منشی الٰہی بخش صاحب اکاؤنٹنٹ لاہور، ڈاکٹر عبدالحکیم خاں صاحب اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ، میر عباس علی صاحب لدھیانہ، فتح خاں صاحب، منشی غلام قادر صاحب، حکیم مظہر حسن صاحب، حافظ حامد علی صاحب وغیرہ وغیرہ۔
دیکھو(عصائے موسی ص۹۷) جو مرزاقادیانی کے بست سالہ مرید تھے اور مخلصین تھے اور ان کے سوا ہزاروں ایسے ہیں کہ قبل میں خوش اعتقادی کے ساتھ مرزاقادیانی کے طرفدار تھے۔ جب ان کا حال پر ضلال کھلا تو سب کے سب ان سے بیزار ہوگئے۔ راقم بھی ایک ان کے بااختصاص مریدوں میں تھا اور حین اقامت ضلع فتح پور ان کے ساتھ راسخ الاعتقادی کا دم مارتا تھا۔ مگر ہزار ہزار شکر اس پاک بے نیاز خدائے ذوالجلال کا جس نے اس خاکسار کو اپنے فضل وکرم سے مرزاقادیانی کی کارستانیوں پر جلد مطلع وآگاہ کر دیا اور ان کی نبوت باطلہ کو دور ہی سے سلام کر کے مراد آباد جاکر حضرت مولانا ومرشدنا شاہ فضل الرحمن قدس اﷲ سرہ العزیز کے ہاتھ پر اپنے سابق اعتقادات باطلہ سے توبہ کر کے داخل سلسلہ رحمانیہ ہوا۔ اﷲتعالیٰ ہمارے سابق اعمال باطلہ کو بخشے اورجو لوگ ابھی تک بادیہ ضلالت میں گم گشتہ تھے ان کو بھی سیدھی راہ دکھادے۔
پیارے عزیز! آپ نے حضرت مؤلف فیصلہ آسمانی مدظلہ العالی کی طرف اشارہ کر کے