نے چاہی مٹ گئی اور اب تک بھی دوسرے بزرگواروں کے فیضان سے مٹ رہی ہے۔ ذرا جا کر بنگال کے اضلاع جہاں مسلمانوں کی آبادی ہے۔ سیر کرو اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔ پھر اس کے بعد مسلمانوں کی تاریخ اسلام لکھنے کا حوصلہ کرو۔ فقط اپنے خاندان کے کرتوت پر میاں صاحبزادے نے جو شرک عالمگیر قیاس کر لیا ہے۔ بالکل غلط ہے۔ کیا ضلع پٹنہ اور مونگیر اور گیا کے بعض بعض ملکوں کی بستیوں میں جو مشرکانہ رسم شادی بیاہ میں باوجود تعلیم یافتہ ہونے کے رائج الوقت ہے۔ اس کا وہ انکار کر سکتے ہیں۔ ہرگز نہیں اور سب رسومات بدعتیہ کو تو بالائے طاق رکھو۔ مگر ملک جی یہ تو کہیں کہ داداغوم ان کے کون تھے۔ جس کا روٹ وزنی دہ سیر بڑے شدومد سے بت پرستانہ گیت کے ساتھ چڑھایا جاتا ہے۔
داداغوم کا ہے روٹ
ساڑھے بیس گز لنگوٹ
بھر کے لایا ہے کٹتھوست
داد اغوم
راقم… کہئے ملک جی! کیسے پتے کی سنائی۔ ہوش تو آگیا ہوگا۔ تم نے تو بنگال پر مشرکانہ الزام تھوپ دیا تھا۔ مگر میں نے تو اس شرک کا خوانچہ آپ ہی کے سامنے پیش کر دیا۔ عطائے خواجہ وبلقائے خواجہ۔ چونکہ میں بھی ملک ہوں مجھ کو اس سے انکار نہیں کہ کسی زمانہ میں بایام جاہلیت یہ رسم میرے یہاں بھی ہوئی ہوگی۔ مگر ایک زمانہ گزرا کہ بندگان دین کے فیضان سے یہ سب رسوم قبیحہ شرفائے ملک زادگان کی ربی سے بحمدہ مفقود ہوگیا ہے اور شریعت واتباع سنت کی اشاعت پوری طرح سے ہوئی اور ہورہی ہے۔ ہاں چند کوردہ قریوں میں ابھی تک داداغوم کا روٹ جاری ہے۔ جیسے کوسی، آڑھا، وانکڑ وغیرہ وغیرہ جہاں ملک جی کا وطن مالوف ہے۔
اس کے بعد ص۷ میں میاں صاحبزادہ نے ایک چشم دید واقعہ بھی تصنیف کیا ہے۔ وہ قابل دید ہے۔ قولہ کہ جس کو ایک غیور مسلمان سن کر ضرور افسوس کر لے گا۔ اوّل مرزاقادیانی کے واقعات روزمرہ کو پیش نظر رکھتے تو ملک جی کو ہرگز افسوس کا مقام نہ ہوتا۔ کیونکہ مرزاقادیانی تو ایسے ہی کسب حلال پر ادھار کھائے بیٹھے تھے۔ اب خلیفہ جی کے سر پر وہ دستار خلافت بندھ گئی ہے۔ میاں! ذرا اپنی آنکھ کے شہتیر کو دیکھ لو۔ پھر دوسرے پر من گھڑت کہانی جماؤ۔ کیا تم نے رسالہ دار میجر سید امیر شاہ صاحب کا واقعہ بالکل اپنے دل سے بھلادیا کہ مرزاقادیانی نے بیٹا دینے کی بشارت دی اور ایک سال کی میعاد مقرر کی اور پانچ سو روپیہ کا توڑہ