ہوں سلطان القلمی کے دعویٰ دار ہوں۔ مگر دروغگورا حافظہ نباشد صحیح نکلا۔ یہ ہیں مرزاقادیانی کے جھوٹے دعوے۔
پھر بقول صاحب (عصائے موسیٰ ص۱۴۷) ان ہی الفاظ پر کفایت وبس نہیں فرماتے۔ بلکہ مرزاقادیانی نے اپنی طرف سے عربی عبارات میں عجیب لعنتیں تصنیف کر کے لکھی ہیں۔ مثلاً رئیس الدجالین اور اس کا تمام گروہ علیہم نعال لعن اﷲ الف الف مرۃ!
(ضمیمہ انجام آتھم ص۴۹، خزائن ج۱۱ ص۳۳۰)
راقم… ’’ذلک خسران الدنیا والآخرۃ‘‘ کہ مرزاقادیانی کی زبان سے بجائے درودہزارہ کے ہزاروں لعنتیں نکلی ہیں۔ یعنی مسلمان مؤمنین تو درود ہزارہ پڑھتے ہیں اور مرزاقادیانی کے یہاں ہزار لعنتوں کی پھٹکار برس رہی ہے۔ اپنا اپنا نصیب ؎
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
لعنۃ اﷲ علیٰ الکاذبین کے سوا اور کیا کہیں گے۔
اس کے بعد ص۶تا۹ تک جھوٹی من گھڑت کہانی صوبہ بنگال کے مسلمانوں کی لکھی ہے۔ جس کا (خلاصہ یہ ہے کہ نعوذ باﷲ منہا) قولہ کیا امراء کیا عوام قریباً سب کالی مائی کی پرستش کرتے ہیں اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس قدر شرک میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ انہوں نے پرستش کے لئے گھر میں کالی کا بت رکھ چھوڑا ہے۔
اقول ناظرین! ذرا مرزائی طالب العلم کے سفید جھوٹ کو ملاحظہ کریں کہ صوبہ بنگال میں کوئی مسلمان نہیں۔ قریباً سب کے سب مشرک ہیں اور کالی کی پوجا کرتے ہیں۔ ’’فلعنۃ اﷲ علی الکاذبین‘‘ ان کو مجسم جھوٹ کہوں یا جھوٹ کی مشین۔ کس بیدردی سے صوبہ بنگال کے مسلمانوں پر شرک کا الزام دے رہا ہے۔ کیوں نہ ہو قادیان کی تعلیم اور خلیفۃ المسیح کی صحبت کا اثر اتنا بھی نہ ہو تو پھر مرزائی کیسے۔ مگر جھوٹے کو اس کا مطلق خیال نہ رہا کہ خود یہی ملک جی صوبہ بنگال ہی کے ایک نہایت ہی کور دہ قریہ کو سی کے رہنے والے ہیں۔ شاید ان کے یہاں تقریبات میں کالی جی بھی پجتی ہوں تو یہ دوسری بات ہے۔ اسی پر سارے بنگال کے مسلمانوں کو قیاس کرنا بالکل لڑکپن ہے۔ کون نہیں جانتا کہ بنگال کی سرزمین خصوصاً اور سارا ہندوستان عموماً قدوم میمنت لزوم سے حضرت امام المسلمین سید احمد شہیدؒ اور ان کے خلیفہ مولوی کرامت علی صاحب جونپوری کے سارا بنگال بفضلہ تعالیٰ اسلام آباد ہوگیا اور ان بزرگان کے فیضان سے شرک اور بدعت جس قدر خدا