المرسلین وخاتم النبیین بنا کر بھیجا تھا اور اسلام کو کامل کر کے اپنی توحید ان کے ذریعہ سے پھیلائی تھی اور اپنے کلام میں صاف صاف بتادیا تھا کہ ہمارے حبیب پاکﷺ کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ پھر باوجود اس قدر صریح ارشاد کے تم نے ایک جھوٹے مفتری کو دنیا کمانے کی غرض سے کیوں مسیح اور مہدی اور جھوٹا نبی مان کر ہمارے ہزاروں بندوں کو گمراہ کیا۔ تب تم کیا جواب دو گے۔ یہ دنیا کا جواب جو یہاں جھوٹ بک رہے ہو وہاں بکار آید نہ ہو گا۔ کیونکہ وہاں خود تمہارے اعضاء اعضاء تمہارے کرتوت کے گواہ بن کر تمہیں جھٹلائیں گے اور خود احکم الحاکمین جو تمہارے دل کی باتوں سے ذرہ ذرہ واقف ہے تم کو بات بنانے کی مجال نہ ہوگی اور بے حجاب دکھلا دیا جائے گا کہ محمد مصطفیٰﷺ اور سچے عیسیٰ (علیہما الصلوٰۃ والسلام) یہ ہیں نہ مرزاغلام احمد قادیانی مفتری کذاب۔
یارو مبارک وہ ہیں جو وہاں کے واقعات کو مدنظر رکھ کر ابھی سے ہوشیار ہو جائیں اور جو لغزش اور غلط فہمی سرزد ہوگئی ہے اس سے صدق دل کے ساتھ نادم ہوکر توبہ کرے اور جواب کے لئے تیار ہو جائے ؎
مرد آخر بین مبارک بندہ ایست
اس کے بعد اسی ص۵ کی سطر۱۴ لغایت۱۶ میں شاید مرزاقادیانی کا مقولہ نقل کیا گیا ہے کہ: ’’مجھ کو حقیر سمجھ کر نفرین کی اور ایک گٹھلی سمجھ کر کوئی پرواہ نہ کی۔ مگر دیکھو اس ’’خالق الحب والنوی‘‘ نے اس ذلیل گھٹلی کو کتنا عروج دیا اور اس میں سے کیسے کیسے کرشمہ دکھائے۔‘‘
میرے پیارے عزیز! خدا کے لئے ذرا غور کر کے یہ تو بتاؤ کہ مرزاقادیانی کا عروج بڑا تھا یا فرعون کا۔ خیر چونکہ یہ بہت گزرے ہوئے زمانہ کی تاریخ ہے۔ اس کو بھی جانے دو۔ حال ہی کا واقعہ پیش نظر رکھ کر مرزاقادیانی کے عروج اور سامی دیانند سروستی کے دنیاوی عروج سے مقابلہ کرو اور جانچو کہ آریوں کے عروج کے مقابلہ میں بیچارے مرزاقادیانی کی کسادبازاری کا ذکر کرنا آپ کو سخت دشوار ہوگا۔ اس لئے میں جھوٹے مسیح اور مہدی کو انہیں کے ہم منصب مدعی نبوت کا ذبہ یعنی سید محمد جون پوری سے مقابلہ کر کے دکھادیتا ہوں۔ جس نے نویں صدی میں اپنی مسیحیت کا اعلان اور نبوت کی اشاعت ایسے زور سے کی کہ باوجود امتداد زمان کثیر آج تک ہزاروں درہزاروں اس کے نام لیوا موجود ہیں اور اس کے زمانہ میں تو اس کی گرم بازاری اس قدر ہوگئی تھی کہ بڑے بڑے رؤسا اور اہل علم اس کے مطیع ہوکر اس کی نبوت کی اشاعت میں سینکڑوں رسالے سیاہ کر دئیے اور لاکھوں کو اس کا مطیع ومنقاد بنادیا تھا۔ چار سو برس کا زمانہ گزرا کہ اب تک اس کے متبعین اسی ہندوستان کے مختلف مقاموں میں مثل حیدرآباد وسندھ وغیرہ کے اس کے مذہب کے حامی ہیں تو