بیباک ہوکر نہ کہتے کہ حق اور نیکی کسی عیسائی یا یہودی یا بے جان دیوار سے بھی ملے تو لے لے۱؎۔ اوّل تو اشارہ کے طور پر مرزاقادیانی کی مثال ان تینوں سے دی ہے۔ جو ان کے عقیدہ کے موافق اپنے نبی کو عیسائی اور یہودی اور بے جان دیوار سے تشبیہ دینا مرزاقادیانی کی خلاف شان تھا۔ بہرحال اس کو وہ جانیں اور ان کے نبی۔ اس کی نسبت مجھ کو کچھ زیادہ سوجھانے کا حق نہیں ہے۔ مگر جو بڑی اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ بموجب آیت شریف مرقومہ بالا کے ہمارے اسلام کا اکمال بدرجہ اتم اس ذات مقدس نبویہ مصطفویہ علیہ الصلوۃ والسلام پر تیرہ سو برس سے زائد ہوئے کہ ہو چکا۔ اب اس کے سوا اور کسی قسم کا حق یا نیکی طلب کرنے والا کسی عیسائی یا یہودی یا کسی شئے بے جان سے بجز کسی بوالہوس خارج العقل کے کوئی دوسرا فہمیدہ مسلمان صاحب قلب سلیم نہیں ہوسکتا۔ اب اس جملہ کا زیب قلم فرمانا طالب العلم مصنف کا سوائے تقاضائے سن اور ناواقفیت کے اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ خدا ان کو تمیز اور شعور عطاء کرے اور سچے اسلام کی قابلیت کا مادہ عنایت کرے۔
آگے چل کر میاں صاحبزادہ نے ص۵ کی سطر۵ لغایت ۹ میں بچوں کی طرح اپنا بھولا پن ظاہر کر کے تحریر کیا ہے کہ: ’’حشر کے دن جب تم سے سوال کیا جائے گا کہ قادیان میں ایک شخص نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا اور اس نے یہ کہا کہ وہ مسیح محمدی اور مہدی جو کہ حضرت سرور کائنات کا بروز۲؎ ہوکر آنے کو تھا وہ میں ہوں۔ کیا تم نے اس کی کوئی تحقیق کی۔ میں نے تم کو عقل سلیم عطاء کی تھی۔ اس سے سوچا اگر وہ سچا تھا تو کیا تم نے اس کی بیعت کی یا محض ضد وتعصب کی وجہ سے جان بوجھ کر آنکھوں پر پٹی باندھ لی اور لوگوں کو گمراہ کرتے رہے تو کیا جواب دو گے۔‘‘
میرے عزیز ملک جی! بڑے غور اور توجہ سے میرا سیدھا سیدھا جواب بھی گوش ہوش سے سن کر نقش کا الحجر کر لیں۔ غالباً یہ جواب باصواب انشاء اﷲ المستعان ان کو اور سب برادران
۱؎ ایسا تو کسی ناقص الاستعداد طالب العلم کا البتہ تقاضا ہوسکتا ہے کہ امید وار بن کر ایک بے جان چیزیا عیسائیت ویہودیت کے گندے کھنڈروں میں حق کا متلاشی رہے۔ ورنہ کھنڈروں میں سوائے گندگی، بول وبراز کے اور کیا رکھا ہوا ہے۔
۲؎ بروزی اور ظلی نبوت ومہدیت کے ثبوت میں کوئی آیت قرآنی یا حدیث صحیح سے سلف صالحین نے استنباط کیا ہو تو حکیم خلیفۃ المسیح صاحب اس کا اعلان کیوں نہیں فرماتے ہیں اور اگر بروز سے مطلب ران کا اوتار لینا جیسا کہ ہندؤں میں ہے۔ خیال کرتے ہیں تو پھر کشن پنتھی بھگت بن جائیے۔