قولہ
قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت
اس بے نشان کی چہرہ نمائی یہی تو ہے
جس بات کو کہے گا کروں
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے
اقول
جب ٹل گئی تو جان خدائی نہیں وہ بات
جھوٹے نبی کی پردہ کشائی یہی تو ہے
فالحمد ﷲ علیٰ ذالک! کہ جس امر کو میں نے مرزاقادیانی کے رد میں ظاہر کرنا چاہا ہے اور فیصلہ آسمانی وغیرہ رسائل میں ظاہر کر دیا گیا ہے۔ اس کو میاں طالب العلم نے اپنے متذکرہ صدر دونوں شعر میں قبول کر لیا۔ اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہزیمت قادیانی ہوسکتا ہے۔
میاں صاحب! فیصلہ آسمانی میں تو اسی کا ذکر کیاگیا ہے کہ جو الہام کا دعویٰ مرزاقادیانی نے بڑے زوروں سے کیا اور صاف صاف اقرار کیا کہ یہ سب خدا کی طرف سے ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو میں مفتری اور کذاب اور ہر بد سے بدتر ہوں۔ پھر وہ الہام مرزاقادیانی کا وقوع میں نہ آیا۔ اس لئے مرزاقادیانی مفتری اور کذاب ٹھہرے۔ کیونکہ اگر وہ الہام واقعی منجانب اﷲ ہوتا تو آسمان ٹل جاتا۔ مگر وہ خدائی وعدہ نہ ٹلتا۔ جیسا کہ خود مصنف نے اپنے دونوں شعروں میں ظاہر کر دیا ہے۔ یہ ہے فیصلہ آسمانی!
مصنف کی دعا سے (جو دیباچہ میں ہے کسی قدر ترمیم کے ساتھ) مجھ کو بھی اتفاق ہے کہ ایک شخص (جھوٹا مسیح اور نبی بن کر) سادہ لوحوں کی آنکھوں پر اپنے فریب اور ضلالت کی پٹی باندھ کر گمراہی کے قعر تاریک میں دھکیل چکا ہے۔ اے رب ذوالجلال! تیرے فضل سے کچھ دور نہیں کہ ان کو اب بھی اس مہلکہ سے نجات دیوے اور اپنے آسمانی فیصلہ سے ان کی نصرت کرے۔ آمین! یا ارحم الرحمین۰ وما توفیقی الا بااﷲ العلی العظیم!
مصنف نے ص۲ سے تمہید اٹھا کر انقلابات زمانہ سے ڈراکر ص۴ کی سطر ۱۳،۱۴ میں لکھا ہے کہ: ’’ایک مسلمان کا فرض ہے کہ جہاں سے اس کو حق اور نیکی ملے، لے لے۔ خواہ ایک عیسائی یا یہودی سے یا بیجان دیوار سے خواہ کہیں بھی ہو۔‘‘
شاید بیچارے طالب العلم کی نظر قرآن مجید کی اس پاک آیت ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا‘‘ پر نہیں پڑی۔ ورنہ یوں