دیباچہ کتاب
M
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم واٰلہ واصحابہ اجمعین!
ناظرین! انصاف پسند کی خدمت میں عرض ہے کہ ایک طالب العلم صاحب مسمی بہ ملک عبدالرحمن منصور (قادیانی) کی طرف سے ایک رسالہ بنام نصرت یزدانی بجواب فیصلہ آسمانی مطبع کلیمی کلکتہ سے چھپ کر شائع ہوا ہے۔ مصنف نے ٹائٹل پیج پر اپنی طالب العلمی کی سند میں مدرستہ تعلیم الاسلام قادیان کا تعلیم یافتہ ہونا اپنا ظاہر کیا ہے۔ کون اس کا انکار کر سکتا ہے کہ جیسا مدرسہ ہوگا ویسی تعلیم بھی ہوگی۔ مرزاقادیانی کی رام کہانیاں اور جھوٹے افسانے دنیا پر روز روشن کی طرح ظاہر ہو چکے۔ ان کے دہرانے کی اس رسالہ میں اب ضرورت باقی نہیں رہی۔ پھر جس یونیورسٹی کے پرنسپل (یعنی مرزاقادیانی) ہوں۔ جن کی کذب بیانی خود انہیں کے متضاد واقوال سے ثابت ہوچکی ہو تو ان کے یونیورسٹی قادیان کے تعلیم یافتہ اور ڈپلومہ یافتہ طالب العلم کا کیا پوچھنا ہے کہ کیسے راست باز ہوں گے۔ قادیانی یونیورسٹی کی تو بناہی جھوٹ پر ٹھہری ہوئی ہے۔ پھر بیچارہ طالب العلم سچائی کی تعلیم کہاں سے حاصل کرے۔ علاوہ اس کے ان کی طفلانہ کم استعدادی تو خود ان کی کتاب مذکور کے ص۱۲ سطر آخیر کے اوپر والی عبارت سے ظاہر ہوتی ہے کہ بیچارہ کو ابھی تک روز مرہ کے عام لفظوں کی صحت تو معلوم ہی نہیں ہے کہ ’’جوق در جوق‘‘ کی جگہ ’’جوک در جوک‘‘ لکھ دیا ہے۔ میاں صاحبزادہ سے کوئی اتنا تو پوچھ لیا کہ یہ لغت پنجابی ہے یا جاپانی۔ کیونکہ غالباً آپ حضرات ناظرین کے کان بھی اس نئی لغت سے ناآشنا ہوں گے۔ یہ تو میاں صاحب کی استعداد کا حال اس پر یہ حوصلہ کہ فیصلہ آسمانی کا جواب لکھتا ہے۔ بعینہ وہی مثل ہے کہ مینڈکی کو زکام اور اس پر طرہ یہ ہے کہ مفتی صادق صاحب ایڈیٹر البدر نے اس رسالہ کی ریویو لکھ کر بڑی تعریف کی ہے یا تو بغیر دیکھے بھالے بقول شخصے من تراحاجی بگویم تو مراحاجی بگو۔ اپنے ہم مشرب بھائی کے لئے صدائے آفرین بلند کر دی۔ یا دیدۂ ودانستہ منصب ایڈیٹری کے خلاف اپنے اخبار کا منہ کالا کیا۔ ٹائٹل پیج میں وہ شعر شاید آپ نے کسی اکابر کے نتیجہ فکر سلیم سے لکھا ہے اور کنایتہ مرزاقادیانی کی راستی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وہ درج ذیل ہے۔ چونکہ مضمون اس کا ناتمام رہ گیا تھا۔ اس لئے راقم نے تیسرا شعر اضافہ کر دیا۔ اب ارباب ذوق سلیم انصاف کریں کہ میاں طالب العلم کی کیسی مرمت ہوگئی۔