تفرقہ نہ ہوتا تو مرزاقادیانی جیسے کی کیا مجال تھی کہ شہسواران عرصہ رسالت ونبوت اور نامداراں بقعۂ امامت وفتوت سے ہم قلم یا ہمقدم ہو سکتا۔
علمائے ملت کا فرض انبیاء کی طرح کہہ دینا ہے۔ کرنا نہ کرنا تمہارا اختیار ہے۔ ’’لئلا یکون للناس علے اﷲ حجۃ بعد الرسل‘‘ اب قیامت کے روز کسی شخص کی کوئی حجت خدا پر باقی نہ رہی۔ مقدس اسلام کے ہر فرقے کے علمائے کرام نے خدا کی حجت تم پر تمام کر کے خود کو بری الذمہ کر دیا ہے۔ اب غور نہ کرنا تمہارا اپنا قصور ہے۔ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا۔
آپ بغور ملاحظہ کرنے سے معلوم کر سکتے ہیں کہ اس پاک اسلام پر کس قدر حملے ہورہے ہیں۔ ہر شخص کے خیال خام میں ہوس آزادی سمائی ہوئی ہے۔ اپنے اپنے دماغ میں لوگوں نے اسی کی بوبسائی ہے۔ کسی کو نصوص قطعیہ سے انکار ہے کسی کا محض تقلید آبائی پر دارومدار ہے۔ کوئی اپنے کو امام زماں ومہدی دوراں جانتا ہے۔ کوئی دعویٰ نبوت ورسالت کرتا ہے۔ کوئی نبیوں ہی کو بیکار سمجھتا ہے اور عقل ہی کو ہادی محض ورسول برحق جانتا ہے اور کوئی معجزات انبیاء ورسل وکرامات اولیاء ہادیان سبل سے انکار کرتا ہے۔ غرض ’’کل حزب بما لدیہم فرحون‘‘ پر لوگ پھولے ہیں اور ’’اتخذ الہہ ہواہ‘‘ بربھولے ہیں۔
عزیزان من! یہ تمام نتیجہ آزادی اور اس باہمی تفرقہ کا ہے۔ کیوں حضرات جب مسلمانوں کے یہ خیالات ہوئے تو فرمائیے بیچارہ مقدس اسلام کس طرح ضعیف نہ ہو۔
باتفاق مگس شہد میشود پیدا
بہ بیں چہ لذت شیریں در اتفاق نہاد
اب تو حضرات بقول شخصے (میندکے راہم زکام شد) مرزاغلام احمد قادیانی اسلام پر اعتراض کرتے ہوئے نبوت ومہدویت ومسیحیت غرض کہ سب چیزوں کا جملۃً الہام اور خوابوں سے مدعی ہو بیٹھے اور بعض جہال عوام الناس کو شک وشبہ میں ڈال کر گمراہ کر دیا۔ اب اس کے علاوہ مرزاقادیانی بڑی جرأت سے اہل بیت رسالت پر بھی حملے کرنے لگے۔ چنانچہ رسالہ دافع البلاء میں ایک جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور دوسری جگہ امام حسین علیہما السلام پر مدعی افضلیت ہوئے۔ تیسری جگہ خدا کے بمنزلہ ولد کے بن گئے۔ ایسے فضول اور بے مغز دعوؤں سے مجھے اور کل اہل اسلام کو جس درجہ کا رنج وقلق پیدا ہوا ہے وہ بیروں احاطہ تحریر ہے۔ مرزاقادیانی نے حقیقت تو یہ ہے کہ اپنے اس تجاوز اور تعدی سے کل مسلمانوں کے قلوب کو عموماً اور ہم سادات کے دلوں کو خصوصاً