عہد حکومت کوئی کسی کو قتل نہیں کرسکتا۔ چہ جائیکہ مجمع عام ہو اور اس جرم کا ارتکاب ہو۔
مرزا قادیانی کے اس عذر سے عقلمند تاڑ گئے تھے کہ : ؎
زاہد نداشت تاب وصال پری رخاں
کنجے گرفت وترس خدا بہانہ ساخت
یہ صرف بہانہ تھا۔ ورنہ مثل مشہور ہے کہ سانچ کو آنچ نہیں۔ اگر اپنے دعاوی میں سچے ہوتے اور اہل علم کے سامنے اپنے دعاوی نصوص شرعی سے ثابت کرسکتے تو ضرور لاہور آتے۔ لیکن نہ آنا تھا نہ آئے۔
وہی چال یا سنت اب مرزا قادیانی کی امت (مریدوں) میں جاری ہے۔ پہلے اشتہار تو بڑے زور وشور سے دے دیتے ہیں۔ مگر جب آگے سے تیار پاتے ہیں تو بات ٹالنے کے لئے وہی ناممکن القبول شرائط پیش کرنے لگتے ہیں۔ آمدم برسر مطلب۔
اخبار الفضل قادیان مورخہ ۱۰؍ستمبر۱۹۱۸ء میں زیر عنوان ’’کیا علمائے دیوبند ہم سے مباہلہ کریں گے، علمائے دیو بند کو دعوت مناظرہ ومباہلہ دہی۔‘‘ جس کا مطلب صاف تھا کہ پہلے مناظرہ ہوگا۔ اگر مناظرہ سے اور متنازعہ کا تصفیہ نہ ہو تو پھر بعد تصفیہ شرائط مباہلہ ہوگا۔ الفضل کی عبارت ہے۔
’’ان کا یعنی علمائے دیو بند کا کوئی زعیم اپنے دلائل جو ہماری تردید میں رکھتا ہے سنا دئے اور پھر ہمارا جواب سنے۔ اس کے بعد پھر بھی اگر اسے یقین رہے کہ سلسلہ احمدیہ خدا کی طرف سے نہیں بلکہ اس کا امام (نعوذ باﷲ) مفتری اور کذاب اپنے دعوے میں غیر مصدق تھا۔ تو ہم سے حسب سنت رسول اﷲﷺ بعد تصفیہ شرائط مباہلہ کرلے۔‘‘
جس کا جواب علمائے دیو بند کی طرف سے اشتہار نمبر۲ مورخہ ۱۸؍ ربیع الثانی دیا گیا کہ: ’’نہایت صدق واخلاص اور متانت کے ساتھ اولاً اس بات کا فیصلہ کرلیا جائے کہ مرزا غلام احمد قادیانی جن کو آپ نے (معاذ اﷲ) خدا کا برگزیدہ نبی لکھا ہے۔ وہ فی الواقعہ ایسے ہی تھے یا جیسا کہ ان کے مخالف کہتے ہیں۔ وہ ایک مفتری اور کذاب شخص تھا۔ اور اگر بعد مناظرہ بھی نمایاں طور پر حق واضح نہ ہو تو پھر آخری صورت مباہلہ ہے جو اسی وقت کسی میدان میں عمل آئیگا۔
مرزائیوں نے جب دیکھا کہ علمائے دیو بند مناظرہ ومباہلہ کے واسطے تیار ہیں تو اپنے اشتہار مورخہ ۲۶؍ربیع الثانی میں جھٹ لکھ دیا کہ: ’’افسوس علمائے دیو بند نے بجائے مباہلہ کی طرف آنے کے اس سے ہٹ کر مناظرہ کی طرح ڈالی ہے۔‘‘ جس کو پڑھ کر علمائے دیو بند نے