اشتہار نمبر۳ میں مرزائی دروغ بیانی ثابت کرکے جماعت مرزائیہ کی بخوبی قلعی کھول دی ہے۔
(دیکھو اشتہار علمائے دیو بند مورخہ ۲۸؍ربیع الثانی مطابق ۳۱؍جنوری ۱۹۱۹ئ)
لہٰذا ہم علمائے دیو بند کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ قادیانی جماعت میں سے کوئی ایک بھی اصل بحث پر مناظرہ نہ کرے گا۔ یہ ہماری پیش گوئی لکھ رکھیں۔ صرف شرائط کے تصفیہ میں وقت ضائع کرکے بیٹھ جائیں گے۔ بلکہ اپنی فتح کا اشتہار دے دیں گے جیسا کہ ان کا مرشد اور وہ ہمیشہ کرتے رہے۔ جس طرح الفضل (مرزائی اخبار) خود ہی لکھ کر کہ مناظرہ کے بعد مباہلہ ہوگا۔ پھر خود ہی اس سے روگرداں ہوا ہے۔ اسی طرح مرزا قادیانی نے حضرت خواجہ پیر سید مہر علی شاہ صاحب دامت برکاتہم کے مقابلہ میں مباحثہ سے پہلو تہی کی تھی۔ یہ ایک نہایت معمولی چال یا سنت قادیانی ہے۔
مرزا قادیانی بے چارہ ایک ہی مرید دہلوی کہیں بھولے بھٹکے اس قادیانی سنت کے برخلاف بمقام لدھیانہ مولوی ثناء اﷲ صاحب مولوی فاضل ایڈیٹر اہلحدیث امر تسر سے شرطیہ مناظرہ کر بیٹھا جس کا نتیجہ وہی ہوا جو دنیا کو پہلے ہی سوجھ گیا تھا۔ یعنی یہ مرزائی صاحب شرطیہ مناظرہ میں مولوی صاحب موصوف سے ہار گئے اور شکست فاش کھائی۔ کئی سو روپیہ شرط کا ادا کرنا پڑا جس کا اب تک ان کو درد ہوگا۔
پھر مرزائی علمائے اسلام سے کس برتے پر مناظرہ کریں۔ یہ فقط بیوقوفوں کو اپنے دام تزویر میں لانے کے لئے وہ کبھی کبھی اشتہار بازی کردیا کرتے ہیں کہ ’’ہم سے مناظرہ کرلو۔ ہم سے مباہلہ کرلو‘‘ وغیرہ حافظ نے سچ کہا ہے۔
دوش از مسجد سوئے میخانہ آمد پیر ما
چیست یاران طریقت بعد ازایں تدبیر ما
یہ ان کے پیر کی قدیم سنت اور طریقہ ہے کہ مخالف کو پہلے بحث کے واسطے بلانا۔ جب وہ تیار پایا جائے تو کہہ دیا کہ ہم کو الہام ہوا ہے کہ اس سے بحث مت کرو۔ یہ اشتہار بازی صرف سادہ لوحوں کے واسطے کی جاتی ہے کہ مبادا حق کی بات سن کر قابو سے نہ نکل جائیں۔ مباحثہ ومناظرہ تو رہا درکنار وہ تو انہیں اہل حق کی تحریر بھی نہیں دیکھنے دیتے اور یہ چال علمائے اسلام سے ہی نہیں بلکہ میاں محمود اور مولوی محمد علی صاحباں کے درمیان بھی یہی روش جاری ہے۔ اگر مرزائیوں نے علمائے اسلام دیو بند سے حسب تحریر خود مناظرہ کیا تو ہم اپنے اس خیال کو واپس لے لیں گے۔ لیکن لم یفعلوا ولن یفعلوا!