طمانچے مارے گئے۔ صلیب کے عذاب دیئے گئے۔ اور صلیب پر اس کی جان نکلی تھی جیسا کہ انا جیل میں ہے کہ یسوع نے بڑے زور سے چلا کر جان دی اور اس کا توفیٰ وقوع میں آیا ا س طرح نعوذ باﷲ حضرت محمدﷺ کا توفیٰ ہوا ہوگا اور یہی آپ کی دلیل پیش کرے کہ جیسا مسیح ’’فلما توفیتنی‘‘ کہے گا۔ تو ثابت ہوا کہ دونوں کا توفیّٰ ایک ہی تھا۔ تو مولوی صاحب بتا ویں کہ اس عیسائی کو وہ کیا جواب دیں گے؟ آیا ایسی تذلیل اور عذاب جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ہوئے۔ ویسے ہی حضرت خلاصہ موجودات افضل الرسلﷺ کے واسطے ہونے قبول کریں گے یا اپنی اس دلیل کی اصلاح کریں گے کہ دونوں کا توفیّٰ ایک ہی قسم کا نہ تھا۔
تمّت
دیو بند کے علمائے اسلام اور قادیانی چالیں
جیسا کہ مرزا قادیانی کا طرز عمل یہ تھا کہ پہلے زور وشور سے مخالفین کو مناظرہ ومباہلہ کے واسطے للکار کر ایسے پرزور اور شاعرانہ لفاظی اور مبالغہ آمیز الفاظ میں بلاتے کہ کوئی سمجھے کہ آپ ضرور بحث کے لئے تیار ہیں اور شرائط ومباحثہ ومباہلہ ایسے طریق پر مکمل کرکے لکھتے ہیں کہ گویا سچ مچ بحث کے لئے آمادہ ہیں مگر جب مخالفین کی طرف سے قبول دعوت بحث کا جواب جاتا تو پھر اپنی ہی تردید کرکے حیلہ سازی سے ٹال دیتے۔ جس سے ثابت ہوچکا ہے کہ ان کا اس للکار اور دعوت سے صرف اپنے مردوں کو قابو میں رکھنا منظور ہوتا تھا نہ کہ تحقیق حق۔
جیسا کہ انہوں نے حضرت علامہ خواجہ پیر سید مہر علی شاہ صاحب گولڑویؒ (دامت برکاتہم) کے ساتھ کیاتھا کہ پہلے خود ان کو دعوت مناظرہ ومباہلہ دی اور زعم یہ تھا کہ پیر صاحب میرے مقابلہ پر نہ آئیں گے۔ خوب دل کھول کر شرائط مناظرہ ومباہلہ لکھیں اور یہاں تک لکھ دیا کہ جو فریق لاہور میں نہ آوے اس کی گریز سمجھی جائے گی۔ مگر خدا کی شان جب پیر صاحب لاہور میں تشریف لائے تو مرزا قادیانی گھر سے نہ نکلے۔ ہر چند حضرت شاہ صاحب کی طرف سے اشتہار پر اشتہار اور نوٹس پر نوٹس دیا گیا مگر ’’صدائے بر نخواست‘‘ کا مضمون صادق آیا۔ جب حضرت شاہ صاحب تمام لاہور کو گواہ کرکے ایک معقول عرصہ انتظار کرنے کے بعد واپس چلے گئے تو مرزا قادیانی نے اپنے مریدوں کی تسلی کے واسطے اشتہار دے دیا کہ: ’’چونکہ مجھ کو لاہور میں جانے سے خطرۂ جان ہے اور پیر صاحب کے ساتھ سرحدی پٹھان تھے۔ اس لئے میں لاہور نہ گیا۔ یہ صرف رکیک عذر اپنے قابو یافتگان کی خاطر کیا گیا۔ ورنہ گورنمنٹ انگریزی کے