علیہ السلام والا محمدﷺ کی طرف سے نہ ہوگا۔ کیونکہ رسول اﷲﷺ نے ماقال نہیں فرمایا بلکہ کما قال فرمایا ہے۔ یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی مانند کہوں گا۔ یہ نہیں فرمایا کہ جو کچھ عیسیٰ علیہ السلام کہے گا میں بھی وہی کہوں گا۔
کیا آپ کو معلوم نہیں کہ مرزا قادیانی (انجام آتھم ص۳۹، خزائن ج۱۱ ص۳۹ حاشیہ) پر بحوالہ ڈریپر صاحب قبول کرچکے ہیں۔
’’عیسائی مذہب تین سو برس کے بعد بگڑا۔‘‘ تو اس منطقی دلیل سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تین سو برس تک زندہ رہنا ثابت ہوا ۔ کیونکہ شکل منطق یوں ہوگی۔ عیسائیوں کا بگڑنا دلیل ہے وفات مسیح کی۔ مگر چونکہ تین سو برس تک عیسائی نہیں بگڑے۔ اس لئے ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی تین سو برس تک نہ فوت ہوئے۔ جب فوت نہ ہوئے تو زندہ رہے۔ کیونکہ تین سو برس تک عیسائی نہیں بگڑے۔ پس نتیجہ صاف ہے کہ مسیح تین سو برس تک زندہ رہا اور قرآن کی آیت ’’یا عیسی انی متوفیک‘‘ کہ اے عیسیٰ میں تیرے مارنے والا ہوں۔ وعدہ ہے جس کو مرزا قادیانی مانتے ہیں۔
تو قرآن سے ثابت ہوا کہ زمانہ نزول قرآن بلکہ اس آیت کے نزول تک مسیح نہیں مرا۔ کیونکہ اگر مرگیا ہوتا تو قرآن شریف وعدہ کے رنگ میں متوفیک نہ فرماتا بلکہ ’’ان عیسیٰ مات‘‘ فرماتا۔ مگر چونکہ وفات کا وعدہ فرمایا جس کو مرزاقادیانی بھی وعدہ وفات تسلیم کرتے ہیں تو ثابت ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام چھ سو برس تک تو فوت نہیں ہوئے تھے۔ پس یا تو متوفیک کے معنی کہ میں تیرے مارنے والا ہوں۔ جیسا کہ مرزا قادیانی نے (ازالہ اوہام ص۵۹۸، خزائن ج۳ ص۴۲۳) میں کئے ہیں غلط ہیں یا اس آیت کے نزول تک عیسیٰ زندہ رہے۔
دو گونہ رنج وملال است جان مجنوں را
بلائے صحبت لیلیٰ وفرقت لیلیٰ
دونوں صورتوں میں حیات مسیح ثابت ہے۔ جس سے ایک سو بیس برس کی عمر پاکر مسیح کا فوت ہوناا اور کشمیر میں مدفون ہونا غلط ثابت ہوا کیونکہ تین سو برس تک تو مرزا قادیانی مانتے ہیں کہ عیسائی نہیں بگڑے تھے۔ پس یہ منطق مرزائیوں کا غلط ہے کہ عیسائیوں کا بگڑنا وفات مسیح کی دلیل ہے۔
اگر کوئی عیسائی اعتراض کرے کہ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کوڑے پٹوائے گئے اور