میں بادشاہ کہتا ہے کہ ’’میں تجھ کو مارنے والا ہوں‘‘ کس قدر بے محل ہوگا۔ ایسا ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا جواب کہ میں تجھے مارنے والا ہوں بے محل۔ حوصلہ شکن اور نامعقول ہے۔ پھر غور کرو کہ ایک مظلوم کہتا ہے ’’حضور ظالم لوگ مجھے مارتے ہیں‘‘ اور حضور بھی جواب دیں کہ میں تجھے مارنے والا ہوں کس قدر غلط جواب ہے۔
سوال ۱۸… کیا یہ سچ نہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی حیات کے مسئلہ کی بنیاد توفیّٰ یا وفات کے اس معنی پر منحصر ہے۔ کہ مع جسم ایک انسان کو کہیں لے جانا۔ حالانکہ توفیّٰ کا لفظ کبھی بھی لغت عرب وقرآن شریف وحدیث میں اس معنے پر نہیں بولا گیا۔
الجواب… توفیّٰ کا مادہ وفا ہے۔ اور وفا کے معنی پورا لینے اور قبضہ کرنے کے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں متوفیک کے معنی پورا پورا لے لینے اور قبضے میں کرلینے کے ہیں۔ کیونکہ اگر جسم کو چھوڑ کر روح کو قبض کیا جاوے تو یہ ’’اخذ شئی وافیا‘‘ نہیں۔ ’’اخذ شئی وافیاً‘‘اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ سب اجزاء شے کے قبضہ میں کرلئے جائیں۔
پس اگر خدا تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم کو چھوڑ کر صرف روح کا توفی ورفع کرے تو یہ غلط ہے اور اس پر جملہ کتب لغات وتفاسیر کا اتفاق ہے کہ توفیّٰ کے معنی ’’اخذ شئی وافیا‘‘ ہیں یعنی کسی چیز کا پورا پورا لے لینا اور موت بھی مجازاً توفیّٰ کی ایک قسم ہے۔ حقیقی معنی توفیّٰ کے موت نہیں۔ قرآن میں ہے ’’ثم توفیّٰ کل نفس ما کسبت (آل عمران:۱۶۱)‘‘ دیکھو کہ توفیّٰ کے معنے پورا پورا دینے کے ہیں نہ کہ موت کے۔
سوال نمبر۱۹… کیا ’’توفاہ اﷲ‘‘ کے معنے لغت کی کتابوں میں قبض نفس یا قبض روح لکھے ہیں یا نہیں۔ اﷲ کا انسان کو توفیّٰ دینا؟
الجواب… یہ غلط ہے کہ انسان کو اﷲ کا توفیّٰ دینا ہمیشہ قبض نفس قبض روح کے لئے آتا ہے۔ بلکہ دیگر معنوں میں بھی آتا ہے۔ دیکھو ’’ثم توفیّٰ کل نفس ما کسبت وہم لا یظلمون‘‘ یہاں توفیّٰ کا لفظ ہے مگر معنی قبض نفس وروح کے ہرگز نہیں۔ یہاں پورا پورا صلہ دینے کے معنی ہیں۔ توفیّٰ کے معنی قبض شئی وافیا ہیں اور ’’والموت نوع منہ ‘‘یعنی توفیّٰ کے حقیقی معنی کسی چیز کو اپنے قبضہ میں کرلینے کے ہیں اور موت بھی توفیّٰ کی ایک مجازی قسم ہے۔ کیونکہ توفیّٰ کا مادہ وفا ہے اور وفا کے معنی موت کے ہر گز نہیں۔ ’’اوفوا بعہدی اوف بعہدکم‘‘ کے کیا معنی کرو گے اور ’’الکریم اذا وعدوفا‘‘ کے کیا معنی کرو گے کہ سخی اپنے وعدہ کو مار دیتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ بلکہ یہ کہ: ’’پورا کرتا ہے۔‘‘