دعا تھی اور اس کی تسلی کے واسطے رافعک فرمایا گیا جس سے جسمانی رفع لازم ہے نہ روحانی۔ اور ’’مطہرک‘‘ کا قرینہ موجود ہے۔ یعنی یہود کی خطرناک صحبت سے تم کو پاک کروں گا۔
۲… اگر روحانی رفع مراد لیں تو اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہتک ہے کہ اس کو اپنے رفع روحانی میں شک تھا جب ایک اولوالعزم پیغمبر کو اپنے رفع روحانی میں شک ہو تو پھر امت کا رفع کیوں کر ہوسکتا ہے؟ روحانی رفع تو ہر ایک مومن کا ہوتا ہے۔ پھر حضرت عیسیٰ کو اپنے رفع روحانی کے واسطے دعا کرنی بالکل فضول اور غلط ہے۔
۳… جب رفع روحانی ہر ایک مومن کی ہوتی ہے تو قرآن مجید کا فرمانا فصاحت وبلاغت کے خلاف ہے کہ ماحصل کا وعدہ کرے۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جس کا رفع روحانی پہلے ہی سے حاصل تھا قرآن مجید کا یہ فرمانا کہ اے عیسیٰ علیہ السلام میں تجھے رفع روحانی دوں گا بالکل خلاف فصاحت قرآن ہے۔ اور نیز یہ ثابت ہوگا کہ رفع روحانی کسی پیغمبر کا نہیں ہوا۔ سوائے عیسیٰ اور ادریس علیہم السلام کے۔ اور یہ غلط عقیدہ ہے۔
۴… یہ وعدہ روحانی فطرت انسانی دعا اور تسلی سائل کے بالکل خلاف ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ کی بے قراری صرف صلیب کے عذابوں کے باعث تھی نہ کہ وہ ’’نعوذ باﷲ‘‘ موت سے ڈرتے تھے۔ خدا کو سوال کا جواب سائل کی تسلی کا دینے والا دینا چاہئے تھا۔ اور وہ یہی تھا کہ اے عیسیٰ علیہ السلام میں تجھ کو سلامت رکھوں گا اور اپنی حفاظت میں لیکر اٹھا لوں گا کہ یہودی تجھ کو صلیب نہ دے سکیں گے۔ اور اگر خدا کہے کہ میں تجھے مارنے والا ہوں۔ پہلے یہودیوں کے عذاب تجھ کو دئیے جائیں گے اور تجھ کو صلیب پر لٹکایا جائے گا۔ کوڑے پٹوائے جائیں گے۔ لمبے لمبے کیل تیرے اعضاء میں ٹھوکے جائیں گے۔ جن سے خون جاری ہوگا۔ ان عذابوں سے تیری جان بھی نہ نکلنے پائے گی تاکہ عذاب منقطع نہ ہوجائیں۔
اب کوئی عقل مند تسلیم کرسکتا ہے کہ یہ جواب خدا تعالیٰ کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حالت کے مطابق ہے اور مہربانی ظاہر کرتا ہے؟ ہرگزنہیں! اس جواب سے تو ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ یہود کا طرف دار ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات صلیب پر نہ دے گا تاکہ عذاب سے نجات نہ پاجائے اور یہود ناراض نہ ہوں۔
رفع روحانی تسلیم کرنے میں اس قدر نقص ہیں۔ پس رفع جسمانی سے ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حفاظت ہوسکتی تھی اور ہوئی۔ خیال تو کرو کہ ایک شخص بادشاہ کے حضور نالش کرتا ہے کہ حضور مجھ کو میرے دشمن صلیب دے کر مارنا چاہتے ہیں آپ میری امداد فرماویں۔ اس کے جواب