تین دن کے بعد زندہ ہوکر اٹھائے جانے کا قائل ہے جو انا جیل اربعہ سے تمسک کرتے ہیں۔ اور دوسرا گروہ بموجب تحریر انجیل برنباس کے مسیح کو بغیر صلیب کے صحیح وسلامت آسمان پر اٹھائے جانے کا مذہب رکھتے ہیں۔ یہ تیسرا مذہب کہ مسیح صلیب دئیے گئے اور جان نہ نکلی مرزا قادیانی اور آپ نے کہاں سے لیا ہے۔ جب تک کوئی سند شرعی نہ ہو قابل تسلیم نہیں۔
سوال۱۷… کیا یہ سچ نہیں کہ ’’رافعک الیّ یا رفعہ اﷲ الیہ‘‘ سے یہ نتیجہ نکالنا ہے کہ مسیح زندہ معہ جسد عنصری آسمان پر چلا گیا خلاف لغت وخلاف قرآن ہے۔
الجواب… رفعہ کے معنی بلند کرنے اور اٹھانے کے ہیں۔ یہ آپ نے غلط فرمایا ہے کہ رفع کے معنی خلاف قرآن ہے اور قرآن میں ہمیشہ جس جگہ رفع کا استعمال ہوا ہے۔ رفع روحانی مراد ہے۔ رفع کے معنی قرآن میں ہمیشہ رفع روحانی اور علو درجات کے نہیں ہیں۔ دیکھو قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’ورفع ابویہ علی العرش (یوسف:۱۰۰)‘‘ یعنی حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین کو اپنے تخت کے اوپر اٹھایا۔ دوسری جگہ قرآن میں ’’ورفعنا فوقکم الطّور‘‘ یعنی ’’تمہارے سروں پر طور کو اٹھایا۔‘‘
کیا یہاں بھی رفع کے معنی یہ کرو گے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے والدین کا رفع روحانی ہوا تھا؟اور حضرت یوسف علیہ السلام کے والدین فوت ہوکر یوسف علیہ السلام کے تخت پر بیٹھے تھے اور پہاڑ کا رفع بھی بنی اسرائیل کے سروں پر رفع روحانی تھا۔ یعنی پہاڑ کی جان نکال کر خدا نے بنی اسرائیل کے سروں پر کھڑی کی تھی۔
پس مندرجہ بالا قرآن کی آیات سے ثابت ہے کہ رفع کے معنی مع جسم اٹھا نے کے بھی ہیں۔ لہٰذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کی نسبت روحانی رفع خیال کرنا مفصلہ ذیل دلائل سے غلط ہے۔
۱… جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی موت کے سامان دیکھے اور صلیب کے عذاب ایسے سخت تھے کہ ایک نبی اﷲ کو دئیے جانے خدا اور اس کے رسول کی تذلیل تھی۔ اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دعا کی کہ یہ پیالہ عذاب مجھ سے ٹال دے۔ اس کے جواب میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’انی متوفیک ورافعک‘‘ یعنی اے عیسیٰ میں تجھ کو صلیب کے عذابوں سے بچانے کی خاطر حفاظت میں لیکر اپنی طرف اٹھالوں گا۔ اور پاک کروں گا یہود کی صحبت سے۔
اب اس موقع پر اگر روح کا اٹھانا مراد لیں تو بالکل غلط ہے۔ کیونکہ روح کو نہ تو صلیب دی جاسکتی ہے اور نہ کوئی صلیب کا عذاب روح کو دے سکتا ہے۔ پس حفاظت جسمانی کے واسطے