خارج کردیا ہے؟ کیونکہ و ہ رسول تو آگیا پھر یہ آیت قرآن میں کیوں ہے؟ بہت سی آیات قرآن میں اس قسم کی ہیں کہ ان کی تعمیل ہوچکی ہے۔ مگر قرآن میں موجود ہیں۔ مثلاً مریم علیہ السلام کو جو ولادت مسیح کی بشارت دی گئی تھی تو ولادت مسیح کے بعد قرآن سے وہ آیت نکالی گئی ہے؟ اور روم کے مغلوب ہونے کے بعد قرآن سے غلبت الروم نکالی گئی؟ آدم وحوا وابراہیم وموسیٰ وغیرہم انبیاء کے قصے قرآن سے نکالے گئے؟ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قصہ نکالا جائے گا؟ افسوس ایسے اعتراض پر۔ پس جو جواب مولوی صاحب کا ہوگا وہی ہمارا ہوگا۔
سوال ۱۵… کیا صلیب کے معنی لغت عرب کی سب سے بڑی کتاب تاج العروس اور لسان العرب میں یہ نہیں لکھے کہ صلب جان سے مارنے کا مشہور طریق ہے۔
الجواب… یہ حوالہ تو آپ کے مدعا کے برخلاف ہے۔ کیونکہ صلب کے معنی جان سے مارنا ہے۔ اورقرآن نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت صلب کی نفی کی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مارے نہیں گئے۔ جب مارے نہیں گئے تو زندہ ہیں۔ اور یہی مقصود تھا۔ ’’والحمد ﷲ ‘‘
سوال ۱۶… ’’ولکن شبہ لہم‘‘ میں ضمیر شبہ میں مضمر ہے وہ حضرت عیسیٰ کی طرف جاسکتی ہے۔ اور اس کے یہ معنی کہ کوئی شخص مسیح کا ہم شکل بنایا گیا بالکل غلط ہے؟
الجواب… شبہ کی ضمیر تو اﷲ تعالیٰ کی طرف راجع ہے جیسا کہ مفسرین کا اتفاق ہے ان کے مقابل آپ کا کہنا کچھ وقعت نہیں رکھتا۔ کیونکہ تفسیر بالرائے کفر ہے اور آپ رائے سے کہتے ہیں۔
جب انجیل برنباس میں صاف لکھا ہے کہ ’’پس اے برنباس معلوم کر ایسی وجہ سے مجھ پر اپنی حفاظت کرنا واجب ہے۔ اور عنقریب میرا ایک شاگرد مجھے تیس سکوں کے ٹکڑوں کے بالعوض بیچ ڈالے گا اور اس بناء پر مجھ کو اس بات کا یقین ہے کہ جو شخص مجھے بیچے گا وہ میرے ہی نام سے قتل کیا جائے گا۔ اس لئے کہ اﷲ مجھ کو زمین سے اوپر اٹھا لے گا اور بے وفا کی صورت بدل دے گا۔ یہاں تک کہ ہر ایک اس کو یہی خیال کرے گا کہ میں ہوں۔ ‘‘ (انجیل برنباس فصل ۱۱۲ آیت ۱۳،۱۴،۱۵)
چنانچہ یہودا اسکریوطی پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شبیہ ڈالی گئی اور وہ صلیب دیا گیا۔ اور یہ وہ انجیل ہے جسے مرزا قادیانی نے اصلی انجیل قبول کیا ہے تو آپ کس طرح انکار کرسکتے ہیں۔ اور تمام مفسرین کے برخلاف کس طرح ایک تیسری بات اپنی رائے سے کہہ سکتے ہیں۔ مفسرین نے اناجیل سے تمسک کرکے دو ہی قسم کی تفسیر کی ہے۔ ایک گروہ تو مسیح کے صلیب دئیے جانے اور پھر