وقت بھی لوگ اس آیت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ ہونے کا نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہوں گے۔
الجواب… جب قتل سے اور صلیب پر فوت نہیں ہوا تو زندہ رہنا ثابت ہے اور یہی ہمارا مقصود ہے اور آسمان پر جانا بحالت زندگی انجیل اور قرآن سے ثابت ہے تو اب بار ثبوت آپ کے ذمہ ہے کہ آسمان پر کب فوت ہوا اور فرشتوں نے ان کو کس آسمان پر دفن کیا اور کب جنازہ پڑھا گیا۔ زمین پر جو ان کی قبر ہونے والی ہے حسب فرمودہ رسول اﷲ ﷺ مدینہ میں ہے جب وہ خالی ہے اور حاجی لوگ شہادت دیتے ہیں کہ ایک قبر کی جگہ درمیان قبور ابو بکر عمر ؓ کے ابتک خالی ہے تو اس سے بالبداہت حیات ثابت ہے۔ اگر فوت ہوچکا ہے تو کوئی آیت یا حدیث پیش کرو کہ مسیح فلاں تاریخ اور فلاں ملک میں فوت ہوکر مدفون ہے۔
مگر واضح رہے کہ جس طرح ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں انجیل اور قرآن اور حدیثوں سے حضرت عیسیٰ کی زندگی ثابت کی ہے اسی طرح قرآن وحدیث سے آپ ان کی وفات ثابت کریں ۔ اور جو تیس آیات مرزا قادیانی نے اور ساٹھ آیات مرزا خدا بخش نے عسل مصطفی میں میں لکھی ہیں ایک بھی ظاہر نہیں کرتی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے۔ ان تمام آیات سے موت کا لازم ہونا ثابت ہوتا ہے جس کو تمام مسلمان مانتے ہیں کہ بیشک ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ حق ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ضرور فوت ہوں گے۔ اور خدا تعالیٰ عمر دراز دینے سے عاجز نہیں۔ نظیریں موجود ہیں کہ آدم اور نوح علیہم اسلام اور عوج بن عنق کو اس قدر عمریں دراز دیں کہ آ ج کل محالات میں سے ہیں۔ یعنی حضرت آدم اور حضرت نوح علیہما السلام کی عمریں قریب ایک ایک ہزار سال اور عوج بن عنق کی عمر دو ہزار سال سے اوپر تھی۔
پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تانزول زندہ رہنا خدا تعالیٰ کی لامحدود قدرت کے آگے مشکل اور محالات سے نہیں۔ جب قرآن، حدیث اور انجیل مسیح کو زندہ بتاتے ہیں تو آپ کا کوئی منصب نہیں کہ اپنے قیاس سے ان کا رد کریں اور فلسفیوں کی پیروی میں آسمانی کتابوں اور احادیث نبوی سے انکار کریں۔
باقی رہا مولوی صاحب کا یہ اعتراض کہ بعد نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہ آیت قرآن منسوخ ہوگی یا پھر بھی مسیح زندہ مانا جائے گا۔ اس کا جواب دینے سے پہلے مجھے تعجب آتا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب جب ایم اے اور مفسر ومدرس قرآن اور یہ اعتراض؟ پہلے ہم پوچھتے ہیں کہ مولوی صاحب نے ’’یأتی من بعدی اسمہ احمد‘‘قرآنی آیت کو منسوخ کرکے قرآن سے