ہوگا۔ مولوی صاحب یہ تو قرآن اور حدیث سے ثابت ہے کامل وقطعی ثبوت ہے۔ اگر آپ نہ مانیں تو قرآن اور حدیث کا فیصلہ آپ کو منظور نہیں۔ میری عقلی اور فلسفی دلیل یہ ہے کہ روح ایک جوہر لطیف ہے۔ اس کے اوپر کسی کی حکومت اور قبضہ سوائے اﷲ تعالیٰ کے کسی کا نہیں ہوسکتا۔ صرف روح کو یہود نہ تو پکڑ سکتے ہیں اور نہ صلیب دے سکتے ہیں۔ صلیب پر لٹکنے والی چیز جسم عیسیٰ علیہ السلام تھا جو کہ صلیب سے بچایا گیا اور اٹھایا گیا۔ یعنی جس چیز نے صلیب دیا جانا اور قتل ہونا تھا وہ جسم تھانہ کہ روح اور اﷲ تعالیٰ صلیب اور قتل کی تردید فرما کر کہتا ہے کہ عیسیٰ نہ قتل ہوا نہ صلیب دیا گیا۔ وہ اﷲ کی طرف اٹھایا گیا۔ پس ثابت ہوا کہ جسم وروح دونوں حسب وعدہ ’’انی رافعک‘‘ اٹھائے گئے۔ جب جسم وروح دونوں کا اٹھایا جانا ثابت ہوا تو اظہر من الشمس ثابت ہوا کہ مسیح زندہ بجسد عنصری اٹھایا گیا۔ کیونکہ قتل وصلب کا فعل جسم پر وارد ہوسکتا ہے اور جسم ہی قتل وصلب سے بچا کر اٹھایا گیا۔
تیسری دلیل! قرآن کریم میں حکم ہے کہ اگر تم کسی امر کو پورا پورا نہیں جانتے تو اہل کتاب سے دریافت کرو۔ اب چو نکہ قرآن شریف نے ’’رفع اﷲ الیہ‘‘ فرمایا اور زیادہ تفصیل رفع کی نہیں فرمائی۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم انجیل سے رفع کی کیفیت دیکھیں۔ کہ صرف روح کا رفع ہوا یا جسم وروح دونوں کا رفع ہوا۔ دیکھو انجیل لوقا باب ۲۴ آیت ۵۰ سے ۵۲ تک۔ ’’تب وہ یعنی عیسیٰ علیہ السلام انہیں وہاں سے باہر بیت عناتک لے گیا اور اپنے ہاتھ اٹھا کے انہیں برکت دی اور ایسا ہوا کہ جب وہ انہیں برکت دے رہا تھا۔ ان سے جدا ہوا اور آسمان پر اٹھالیا گیا۔‘‘
یہاں پر انجیل نے قرآن کی آیت ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ کی تفسیر کردی ہے۔ یا یوں کہو کہ قرآن شریف نے انجیل کی ان آیات کی تصدیق فرما دی۔ یعنی اول انجیل سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بمعہ جسد عنصری اٹھایا جانا مذکور ہے اور قرآن نے بھی تصدیق فرما دی ہے۔ اب کسی مسلمان کا کام نہیں کہ انکار کرے۔ کیونکہ ہر ایک مسلمان سب سے پہلے اسی پر ایمان لاتا ہے کہ خدا اور اس کے فرشتے اور کتابوں اور رسولوں پر ایمان لاتا ہوں جیسا کہ ’’آمنت باﷲ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ‘‘ سب سے پہلی اسلامی تعلیم ہے اب کوئی نہ مانے تو اس کا اختیار ہے۔
سوال۱۴… ’’ما قتلوہ وما صلبوہ‘‘ سے یہ استدلال کہ فوت ہی نہیں ہوئے بالکل غلط ہے۔ کیونکہ کسی شخص کی نسبت یہ کہنے سے کہ وہ قتل نہیں ہوا یا صلیب پر نہیں مرا یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ وہ مرا بھی نہیں (آگے چل کر مولوی صاحب تمسخر سے کہتے ہیں کہ) مزعومہ دوبارہ آمد اور آخر وفات پانے کے بعد بھی ان الفاظ سے یہی نتیجہ نکلے گا یا آیات منسوخ ہوجائیں گی۔ یا اس