آپ (مریدان مرزا) صاحبان جو مرزا قادیانی کی تعلیم پھیلاتے ہیں۔ اور مرزا قادیانی فوت ہوچکے ہیں کیا آپ کے تعلیم پھیلانے سے مرزا قادیانی احمدیت کے بانی اور احمدیوں کے معلم نہیں رہے؟ اس کا جواب اثبات میں ہی دیں گے۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام بعد نزول جب شریعت محمدی کے تابع ہوں گے۔ تو پھر سب کے مزکی حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ ہی ہوں گے۔ بلکہ ایک پہلو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معلم بھی محمد رسول اﷲﷺ ہی ہوں گے جن کے دین کی اشاعت بعد نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کریں گے۔
سوال ۱۰… پادری کاسوال ہے کہ دجال کا فتنہ فرو کرنے کے لئے اخیر زمانہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نزول فرماویں گے اور دجال کے فتنہ کو دور کریں گے تو محمد رسول اﷲﷺ سے افضل متصور ہوں گے اور اس طرح محمد ﷺ آخری نبی نہیں رہتے۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے مثیل مسیح مراد لیں جیسا کہ انجیل میں فیصلہ ہے کہ الیاس کی دوبارہ آمد سے یوحنا یعنی یحییٰ اسکا مثیل مراد ہے تو یہ اعتراض اٹھ جاتا ہے؟
الجواب… پادری کا جواب تو کئی دفعہ ہوچکا ہے صرف آپ کی تسلی کے واسطے بار بار کہنا پڑتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ آنا ختم نبوت کے منافی نہیں کیونکہ آخری نبی تو محمد رسول اﷲﷺ ہی ہیں اور جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام بعد نزول شریعت محمدی کے تابع ہوں گے تو اس میں شان محمدﷺ دوبالا ہوگی کیونکہ عیسائیوں کا خدا محمدﷺ کی تابعداری کرتا ہے۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو محمدﷺ پر بعد نزول کوئی فضیلت نہ ہوگی۔ کیونکہ جو فرق تابع اور متبوع میں ہوتا ہے وہی فرق شان احمدی اور شان عیسوی میں ہوگا۔
آپ کا یہ اعتراض کہ جو فتنۂ دجال کو دور کرے گا وہ محمدﷺ سے افضل سمجھا جائے گا۔ غلط ہے۔ ورنہ آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ مرزا قادیانی، محمد رسول اﷲﷺ سے افضل ہیں۔ کیونکہ آپ کے زعم میں مرز ا قادیانی مسیح موعود ہیں اور ان کے وقت میں فتنہ دجال دور ہوا۔ آپ کا اعتراض تو بحال رہا۔ بلکہ زیادہ ہتک ہے کہ جو کام محمدﷺ سے نہ ہوسکا وہ غلام احمد قادیانی نے کیا پس وہی افضل نبی ہوا۔ نبی کا کام اگر نبی کردے تو کوئی ہتک نہیں کیونکہ انبیاء علیہم السلام آپس میں بھائی ہیں۔ اگر ان کا کام غلام اور امتی ہی کرے تو بہت ہی ہتک ہے۔
جواب دیتے وقت یہ امر ذہن میں حاضر کرلیں کہ ایلیا کے یوحنا (یحییٰ) میں ہونے کی تردید حکیم نور الدین خود کرچکے ہیں۔ وہو ہذا۔ ’’یوحنا اصطباغی کا ایلیا میں ہونا بالکل ہندوئوں کے مسئلہ اواگون کے ہم معنے یا اس کا نتیجہ ہے۔‘‘ (فصل الخطاب ص۱۳۴ مصنفہ حکیم نور الدین)