قیامت سے بھی آپ کی مرادبروزی قیامت ہوگی جس کا دوسرا نام تناسخ ہے اور یہ صریح کفر ہے کہ قیام قیامت سے انکار کیا جاوے۔ اگر اصالتاً نزول باطل تھا تو قرآن شریف دوسرے عقائد ابن اﷲ کی طرح اس کو بھی باطل قرار دے دیتا۔ اس قدر حدیثوں میں ذکر کی کیا ضرورت تھی؟
سوال ۷… کیا اس بات میں امت محمدیہ کی جو خیر الامت ہے ہتک نہیں ہے کہ اصلاح امت محمدیہ کے لئے ایک نبی آوے۔ امت میں کوئی لائق نہیں کہ اصلاح کرے۔ اور خدا کو نبی بھیجنا پڑا؟
الجواب… حدیث میں ہے کہ مسلمانوں کا امام عرض کرے گا کہ جماعت کروائیے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے کہ نہیں اور آپ مسلمانوں کے امام کے پیچھے نمار پڑھیں گے۔یہ امت محمدی کا فخر ہے اور عزت ہے کہ اس میں ایک اولوالعزم پیغمبر شامل ہوتا ہے اور دعا سے شامل ہوتا ہے۔ دیکھو انجیل برنباس۔ ’’اے اب بخشش والے اور رحمت میں غنی تو اپنے خادم (عیسیٰ) کو قیامت کے دن اپنے رسول کی امت میں ہونا نصیب فرما۔‘‘ (فصل ۲۱۲ ص۱۹۴)
اب بتائو کہ یہ امت محمدیہ کی ہتک ہے یا علودرجہ کا ثبوت ہے۔ کہ ایک نبی دعا کرتا ہے کہ اے خدا مجھ کو امت محمدی میں ہونا نصیب فرما۔ دوم! کس قدر عالی مرتبہ اس امت کا ہے کہ عیسائیوں کا خدا اس کا ایک فرد ہو کر آتا ہے۔ مگر تعصب بھری آنکھ کو یہ عزت ہتک نظر آتی ہے۔ سچ ہے۔ ؎
کسے بدیدہ انکار گر نظر بکند
نشان صورت یوسف دہد بنا خوبی
بلندی شان محمدیﷺ آپ کو ہتک نظر آتی ہے۔ یہ نظر کا قصور ہے۔ آہ۔ کس قدر کج فہمی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے سے تو ہتک ہے۔ مگر عیسیٰ کے بروز کے آنے سے ہتک نہیں۔ حضرت اس کی کیا ضرورت ہے کہ محمدی صفت نہ آوے اور عیسیٰ صفت آوے۔ عیسیٰ صفت تو عیسائیوں کے لئے آنا چاہئے۔ پس مرزا قادیانی عیسیٰ صفت کیوں ہوں؟ خود عیسیٰ علیہ السلام ہی امتی ہوں تو امت کی فضیلت ہے۔
سوال ۸… کیا ختم نبوت کے مقابل جو محکمات قرآنی وحدیثی پر مبنی ہے ضروری نہیں کہ ایک پیش گوئی کی تاویل کی جائے؟
الجواب… یہ پیش گوئی نہیں رسول اﷲ ﷺ کا فیصلہ ہے۔ اور فیصلہ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام نبی ناصری کی بابت ہے۔ اگر اس فیصلہ سے انکار کرکے مرزا غلام احمد کو مسیح موعود مانا جاوے