میں ہماری عقلوں کا کیا منصب ہے کہ ہم اعتراض کریں کہ عیسیٰ علیہ السلام کے آنے سے دین اسلام ناقص ہوگا۔ چونکہ یہ اعتراض ایک عقلی ڈھکوسلا ہے اس واسطے ہم اس کا جواب عقلی دلائل سے دیتے ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی علت غائی احکام دین اسلام کی تنسیخ یا شریعت محمدی کی کمی پوری کرنی نہیں۔ دیکھو قرآن مجید فرما رہا ہے کہ : ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ (نسائ:۱۵۹)‘‘ یعنی مسیح کی موت سے پہلے اہل کتاب اس پر ایمان لائیں گے۔ اور اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے اورصلیب توڑیں گے۔ الخ۔ جس سے ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہود اور نصاریٰ کی اصلاح کے واسطے آئیں گے۔ اور نہ کہ دین اسلام اور امت محمدی کی اصلاح کے واسطے۔
سوال۵… حضرت عیسیٰ کا کام کوئی مجدد کیوں نہیں کرسکتا؟
الجواب… چونکہ مجدد صاحب حکومت وجلال نہیں ہوتا اور اسلامی امت کا وہ صرف ایک فرد ہوتا ہے اس لئے اس کا کہنا صرف مسلمانوں پر ہی اثر کرتا ہے اور ارادہ خداوندی میں کسر صلیب واصلاح یہود ہے۔ اس لئے (اسی پیغمبر کو جسے ایک گروہ خدا بنا کر گمراہ ہوا۔ اور دوسرا گروہ جس نے ’’انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم (نسائ:۱۵۷)‘‘ کا اعتقاد رکھا اور اس کی نبوت سے انکار کیا جب وہ زندہ خود ہی آسمان سے اتر کر انکو سمجھا دے گا تو وہ آسانی سے سمجھ جاوینگے اور ایسا کھلا معجزہ اور کرشمہ قدرت دیکھ کر سب اہل کتاب یہودونصاریٰ ایمان لے آئیں گے۔ جیسا کہ قرآن میں ہے۔ ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ (نسائ:۱۵۹)‘‘یہ کہاں لکھا ہے۔ کہ امت محمدی کی اصلاح کے واسطے آئینگے۔ حدیثوں میں بصراحت مو جود ہے کہ حضرت مہدی فتنہ سفیان کو دور کرنے کی غرض سے آئینگے۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کے قتل کے واسطے اور صلیب کے توڑنے کے لئے آئینگے۔ آپ کے پاس کوئی سند شرعی ہے تو اس کا حوالہ دو ورنہ اپنے قیاس سے اعتراض کرنا دینداری کے برخلاف ہے۔ علماء امتی کا نبیاء بنی اسرائیل کا صرف یہ مطلب ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل کے نبی تبلیغ دین کرتے تھے۔ اسی طرح میرے علماء امت تبلیغ دین کیا کریں گے۔ کیونکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ یہ نہیں کہ علمائے امت بنی اسرائیل کے نبیوں کے ہم مرتبہ ہوں گے یا کسی قسم کی نبوت کے مدعی ہوں گے۔
سوال ۶… آنحضرتﷺ کی قوت قدسی نے بڑے بڑے عظیم الشان آدمی پیدا