سنت نبوی میں تالیف کیں۔ اور طبع کراکر مفت تقسیم کیں۔ دوسرے صاحب مولانا احمد رضا خان صاحبؒ بریلوی مجدد زمانہ تھے ان کی ہر ایک کتاب کے سرورق پر لکھا جاتا تھا۔’’مجدد زمانہ‘‘ اور انہوں نے اسلام کی حمایت میں دو سو سے اوپر کتابیں مخالفین کی رد میں لکھیں۔ تیسرے صاحب مولانا مولوی محمد علی صاحب مونگیریؒ ہیں جنہوں نے آریوں اور عیسائیوں کی رد میں بہت سی کتابیں لکھیں اور مفت تقسیم کیں۔
مجالس الابرار میں لکھا ہے کہ علمائے زمان جس کو ناقد احادیث نبوی سمجھیں اور جو علم وفضل برآمد علمائے زمانہ ہوا اس کو علماء خود مجدد تسلیم کرتے ہیں۔ مرزا قادیانی کو علمائے زمانہ نے قرآن اور احادیث سے ناواقف مانا۔ کیونکہ مرزا قادیانی کسی اسلامی درسگاہ کے سند یافتہ نہ تھے۔
پس یہ غلط ہے کہ مرزا قادیانی کے سوا کوئی مجدد نہیں ہوا۔ مرزا قادیانی کے ہمعصر چار مجدد تو صرف ہندوستان میں ہوئے۔ علی ہذا القیاس دوسری ولایتوں میں بھی اس صدی کے کئی مجدد ہوں گے۔ اگر مولوی محمد علی (مرزائی) کو معلوم نہیں تو ان کا عدم علم مجدد وجود مجدد کے عدم پر دلیل نہیں ہوسکتا۔
جس پریشان طریق سے مرزا قادیانی نے دعویٰ کیا ہے کہ میں مجدد ہوں۔ امام زماں ہوں۔ نبی ہوں۔ رسول ہوں۔ رجل فارسی ہوں۔ مسیح موعود ہوں۔ مریم ہوں۔ آدم ہوں۔ کرشن ہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس طریق سے تو کسی نے دعویٰ نہیں کیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ مجدد نہ تھے۔
مرزا قادیانی کے ہمعصر محمد احمد سوڈانی، ملا سمالی لینڈ، امام یحییٰ، شیخ ادریسی اور یحیٰ عین اﷲ مدعیان مہددیت تھے۔ مولوی صاحب نے لکھ تو دیا کہ روئے زمین پر کسی نے دعویٰ مہدویت ومجددیت نہیں کیا۔ مگر انہیں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ مرزا قادیانی کے سامنے ہی کتنے ایک مدعیان موجود تھے جن کے مرید جوشیلے اور ان کے بعد ان کے مذاہب کو ترقی دے رہے ہیں۔ مولوی صاحب کو یہ کیونکر معلوم ہوا کہ اسلامی دنیا میں روم وروس شام وترکستان اور عربستان وغیرہ وغیرہ میں کوئی مجدد نہیں لہٰذا مرزا قادیانی کو ضرور ہی مجدد ومان لو اور لطف یہ ہے کہ ہندوستان تک ہی آپ کی معلومات محدود ہے کیا مجدد الف ثانیؒ وشاہ ولی اﷲ صاحبؒ جس زمانہ میں ہوئے وہ کل دنیا کے لئے کافی تھے؟
ہر گز نہیں پس یہ غلط ہے کہ چونکہ مرزا قادیانی کے سوا کوئی مدعی نہیں۔ اس واسطے مرزا قادیانی کو ہی مجدد مان لو۔ شیخ سعدی رحمتہ اﷲ علیہ کا یہ مقولہ انہیں بھولنا نہ چاہئے کہ: ’’محال است