برداشت کرنی پڑتی ہیں۔
ناظرین! سچا اور جھوٹا اسی سے پہچانا جاسکتا ہے مگر عقل سلیم درکار ہے۔ مرزا قادیانی قادیان میں امن وامان سے زیر حکومت گورنمنٹ انگریزی عیش وآرام سے زندگی بایں طور بسر کرتے ہیں کہ خس کی ٹٹیاں اور برف کے پانی اور ملذذ ومکلف اور مقوی غذائیں استعمال کرتے ہیں مگر راست گو ایسے ہیں کہ کہتے ہیں کہ میں وہ شخص ہوں بلکہ اس سے سو درجہ زیادہ ہوں جس نے ایک ظالم بادشاہ یعنی یزید کے وقت تمام بال بچوں سمیت تین دن کے پیاسے نے دشت کربلا میں شہادت پائی تھی۔ آپ نے قادیان میں بیٹھے بیٹھے سو حسینؓ کی شہادت پالی حالانکہ دروغگو کو کبھی ایک سوئی کا زخم بھی نہ لگا اور نہ کبھی کانٹا تک چبھا ۔ اسی پر مرزا قادیانی کی دوسری باتوں کو ان کی راستی پر قیاس کرلو۔ ایسی عیش وآرام کی زندگی جو کسی امیر الامراء کو بھی نصیب نہ ہو کہ جس راستہ سے مرزا قادیانی گزریں وہ عطر سے معطر ہوجائے۔ اور بید مشک وکیوڑہ کی وہ کثرت استعمال کہ گاگروں کی گاگریں ہضم کی جاویں اور حکیم نور الدین کی ایجاد کردہ یاقوتیاں اور عنبر وغیرہ کا استعمال کرتا ہوا جو شخص شہید کربلا بن جاوے اگر وہ رسول ونبی بھی اسی راست گوئی کے ذریعہ بن بیٹھے تو ’’ہر کہ شک آردکافر گردد‘‘ نہ ہو تو اور کیا ہو۔ مختصر یہ کہ مرزا قادیانی کے افعال واقوال والہامات مجددو ں کے برخلاف ہیں تو پھر مرزا قادیانی مجد کس طرح ہوئے؟ ’’برعکس نہند نام زنگی کافور‘‘ نہیں تو اور کیا ہے۔
حضرت خلاصہ موجودات محمد رسولﷺ نے مجدد کی خود صفت بیان کردی ہے۔ ’’من یجددلہا دینہا‘‘ یعنی مجدد وہ ہے جو دین کو تازہ کر دیا کرے گا پس اگر مرزا قادیانی نے دین محمدی کو جو صحابہ کرامؓ وسلف صالحینؒ کے وقت تھا تازہ کیا ہے تو بیشک مجدد ہوسکتے ہیں اور اگر مرزا قادیانی نے بجائے تجدید دین کے بدعات اور باطل مسائل جن کو قرآن اور شریعت محمدی نے باطل قرار دیا۔ ان مسائل کو دین اسلام میں داخل کیا تو پھر وہ کسی طرح مجدد کا لقب نہیں دئیے جاسکتے۔ مرزا قادیانی نے مفصلہ ذیل باطل عقائد ومسائل اسلام میں داخل کئے ہیں۔
۱… ابن اﷲ کا مسئلہ جو قرآن شریف کے صریح برخلاف ہے۔
(حقیقت الوحی ص۸۶، خزائن ج۲۲ ص۸۹)
۲… اوتار وبروز کا مسئلہ جو شریعت محمدی کے رو سے مردود ہے۔
(کشتی نوح ص۱۵، خزائن ج۱۹ ص۱۶)
۳… حلول کا مسئلہ جو بالکل باطل عقیدہ ہے اور شان خداوندی کے برخلاف کہ غیر محدود