ساتھ راہ خدا میں دیا ہو اور جن کی والدہ محترمہ رسول اﷲﷺ کے جگر کا ٹکڑا فاطمۃ زہراؓ سیدۃ نساء عالمین اور باب نفس رسول امیر المؤمنین علیؓ ابن ابی طالب اور بھائی سید جوانان جنت حسن مجتبیٰؓ اور نانا رسول اﷲﷺ جیسے حجۃ خدا لنگر ارض وسمائ، خاتم النبوۃ، باعث ایجاد عالم وآدم ہوئے ہوں۔ نظر انصاف سے دیکھ اے نفس امارہ کون شخص ایسا ان کے بغیر دنیا میں پیدا ہوا یا پیدا ہوسکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ قیامت تک کوئی ماں اب ایسا بیٹا نہیں جن سکتی۔ لہٰذا خاتمہ دنیا تک یہی ایک نظیر حسینی شہادت کی قائم ہوگی۔
بس اے مرزاقادیانی! کیا تو اسی خیالات فاسدہ کی وجہ سے حسینؓ جیسے امام علیہ السلام پر فضیلت حاصل کر سکتا ہے کیا تجھے یہ کہتے ہوئے فاطمہ زہراؓ اور علی مرتضیٰؓ سے شرم نہ آئی۔ خیر اگر فاطمہؓ اور علیؓ سے تجھے دشمنی تھی تو حضرت رسول اﷲﷺ اور خدا کا ہی خوف کیا ہوتا۔ ابے تیری غیرت کیا ہوگئی۔ کیوں شرم کا پردہ رخ سے الٹ دیا۔ جی ہاں! بمفاد حب الدنیا راس کل خطیئۃ حیا وغیرہ سب بالائے طاق، ورنہ کل آفاق میں آصحاب، عمائم اور ارباب مکارم کیونکر ہوسکتے تھے اور مرزاقادیانی کے لنگڑے لولے کانے گنجے بالکے شیطان انسی کی فضیلت کو حسینؓ جیسے ہادی اور الوالعزم شہید پر کیونکر تسلیم کر سکتے۔ ’’فواﷲ لیس ہذا الاغلب الہوی لفرقۃ الضال المضلۃ الا حمقیہ حیاً للریاسۃ وطمعاً للسیاسۃ فبئس مایشترون‘‘
اے مرزاقادیانی! اہل اسلام ایسے بھولے بھالے نہیں ہیں کہ تیرے جیسے مفتری اور کذاب کے فریب وحیون پر ایمان لاویں۔ ان کا ایمان تو خدا اور خدا کے رسول پر ایسا لازم وملزوم ہے۔ جیسے بلا تشبیہ آفتاب سے نور اور نور سے چمک، بھلا کب ممکن ہے کہ اہل اسلام انوار الٰہیہ کو ’’خلقت انا وعلے من نور واحد‘‘ چھوڑ کر تیرے جیسے مفتری اور مدعی کاذب، جاہل مطلق، مضل خلق، لنگڑے لولے اور گنجے کے پیرومرشد کو تسلیم کریں۔ نہیں ہرگز نہیں۔ تمہاری ضلالت اور جہالت تمہارے ہی مریدوں پر مبارک ہو۔تا بمفاد چاہ کن راچاہ درپیش دنیا میں ذلیل وخوار اور آخرت کی نارمیں گرفتار رہیں۔
نورالدین و مرزا کی شرارت
ضلالت ہے بغاوت ہے جہالت
اور (دافع البلاء ص۳، خزائن ج۱۸ ص۲۲۳) میں جو لکھا ہے کہ (اور جو فرقے حضرت حسین