یا علیؓ کو قاضی الحاجات سمجھتے ہیں) سو اس کا جواب یہ ہے کہ فرقہ شیعہ حضرت امام حسینؓ یا حضرت علی مرتضیٰؓ یادیگر آئمہ اطہار علیہم السلام کو ہرگز قاضی الحاجات نہیں سمجھتے۔ یہ فرقہ غالیہ کا اعتقاد ہے۔ اے جاہل کیا اسی علم وفضل سے نبوت اور افضلیت کا دعویٰ کرتا ہے۔
بایں علم ودانش بباید گریست
پس واضح ہو کہ البتہ آئمہ اطہار علیہم السلام کو بارگاہ الٰہی میں قرآن اور حدیث سے قضائے حوائج کا وسیلہ سمجھنا فرقہ شیعہ کا دین اور عین ایمان ہے۔ دیکھو سورہ انعام پارہ ششم ’’یایہا الذین اٰمنوا اتقوا اﷲ وابتغوا الیہ الوسیلۃ‘‘ یعنی اے مومنو! خدا کی طرف پہنچنے کے واسطے وسیلہ پیدا کرو۔ پس اے نادان ہم بادلیل دعویٰ سے کہہ دیتے ہیں کہ وہ وسیلہ صرف حسینؓ اور اس کے آباء ہیں… کیونکہ (ایں خیال ست ومحال ست وجنون) ہماری دلیل اس دعوے کے ثبوت میں تہتر مذہب کے متفق علیہ اور متواتر حدیثین موجود ہیں۔ دیکھو کتاب الواحدہ میں ہے کہ حضرت امیرالمؤمنین مکرر فرمایا کرتے تھے کہ ’’ان الائمۃ من اٰل محمد الوسیلۃ الیٰ اﷲ والیٰ عفوہ‘‘ یعنی آل محمد خدا کی عفو اور بخشش کا وسیلہ، خدا اور اس کے بندوں کے درمیان میں ہیں۔
تفسیر برغانی میں وارد ہے کہ مکرر آل محمد فرمایا کرتے تھے۔ ’’نحن الوسیلۃ الیٰ اﷲ‘‘ اور زیارتوں میں بھی وارد ہوا ہے۔ ’’وجعلتم الوسیلۃ الیٰ رضوانک‘‘
کتاب مودۃ القربی میں ہمدانی سنی حضرت جابرؓ انصاری سے روایت کرتا ہے۔ ’’قال کان رسول اﷲﷺ یقول توسلوا بمحبتنا الیٰ اﷲ تعالیٰ واستشفعوا بنا فان بنا تکرمون وبنا تحیون وبنا ترزقون‘‘ یعنی حضرت رسول اکرمﷺ فداہ روحی ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ توسل کرو ہماری محبت سے اور ہمارے وجود سے شفاعت طلب کرو۔ کیونکہ بتحقیق ہماری وجہ سے تم کو گرامی (عزت) حاصل ہوسکتی ہے اور ہماری برکت سے تم زندگی بسر کر سکتے ہو اور ہمارے ہی وجود سے تم کو خداتعالیٰ روزی دیتا ہے۔
ارشاد دیلمی میں حضرت سلمان فارسیؓ سے منقول ہے۔ یہ حدیث قدسی کہ حضرت رسولﷺ نے فرمایا: ’’ان اﷲ یقول یا عبادی اولیس کان لہ الیکم حاجۃ من کبار الحوائج لاتجود وبہا الا اذا تحمل علیکم باحب الخلق الیکم تقضونہا کرامۃ لیشفعہم الا فاعلموا ان اکرم الخلق علیّ واحبہم الیّ وافضلہم لدی