حیات طیّبؒ
(از محمود خان دریابادی)
گھنی سفید اور نورانی ریش مبارک‘ خندہ پیشانی‘ ابروتک کے بال سفیدی لئے ہوئے‘ رخسار سرخ‘ سفید اور پرگوشت‘ دبلے پتلے منحنی جسم رکھنے کے باوجود حسن وجمال کے پیکر‘ چہرے پر معصومیت اور سادگی کے ساتھ ساتھ فرشتوں جیسا تقدس اور پاکیزگی‘ سر پر اونچی دوپلی ٹوپی‘ جسم پر اعلیٰ درجہ کی شاندار شیروانی اور ہاتھ میں بید کی نفیس چھڑی…
یہ ہیں وہ نقش ونگار جو خانوادہ قاسمیہ کے چشم وچراغ علوم انوریہ کے جانشین اور خانقاہ اشرفیہ کے گل سرسبد حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا تصور کرتے ہی ذہن میں تازہ ہوجاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ ان کی بے شمار خوبیاں طرز تکلم‘ نرم گفتاری، میانہ روی، اخلاص اور علمی تبحر وغیرہ بھی یاد آجاتے ہیں۔
ان کی ۸۶ سالہ زندگی کا ہر دن مختلف تجربات اور واقعات سے پر ہے۔ ان چند صفحات میں ان کی مکمل سوانح تو درکنار ان کا مکمل تعارف بھی نہیں کرایا جاسکتا۔ ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی شخصیت کو کسی تعارف کی ضرورت نہیں ہے۔ کون ہے جو ان سے اور ان کی خدمات سے واقف نہیں؟ زیر نظر تحریر میں ان کی زندگی کے کچھ حالات اور واقعات صرف تبرک کے طور پر درج کئے جارہے ہیں۔ اس سے حضرت کا تعارف مقصود نہیں، اور نہ ہی ان چند صفحات میں حضرت کا مکمل تعارف ہوسکتا ہے۔
جون ۱۸۹۷ء مطابق محرم ۱۳۱۵ھ کو آپ نے اس جہان فانی میں آنکھیں کھولیں۔ محمد طیب نام رکھا گیا۔ جبکہ تاریخی نام مظفر الدین ہے۔ ۱۳۲۲ء میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحبؒ، مفتی اعظم مولانا عزیز الرحمن صاحبؒ اور آپ کے والد ماجد مولانا حافظ محمد احمد صاحبؒ کے سامنے بسم اﷲ ہوئی اور دارالعلوم دیو بند میں تعلیم کا آغاز ہوا۔ دو سال کے اندر حفظ قرآن مکمل کیا گیا۔ پھر فارسی درجات میں داخل ہوئے، پانچ سال میں فارسی درجات سے سند فراغت حاصل کرلی۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے عربی درجات میں منتقل ہوئے۔ اور آٹھ سال میں عربی درجات سے فراغت حاصل کی۔ اس طرح ۱۳۳۷ھ میں دارالعلوم دیو بند نے فضیلت سند سے نوازا۔
امام العصر علامہ انور شاہ کشمیریؒ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور آپ کے والد ماجد