M
احیائے اموات
الحمدﷲ وکفیٰ وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ۰امابعد!
گزشتہ نصف صدی میں برصغیر ہندوپاک میں جن علماء وفضلاء نے اپنی تقریر وتحریر سے دین وملت کی نمایاں، مؤثر اور قابل قدر خدمت کی اور مسلمانوں کی صحیح خطوط پر ذہنی وعملی تربیت میں سرگرم حصہ لیا۔ ان میں حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی مرحوم ومغفور کا نام نامی بہت ہی ممتاز ہے۔
مولانا مرحوم کو اﷲ تعالیٰ نے تقریر وتحریر کی یکساں صلاحیتوں سے نوازا تھا اور دونوں میدانوں میں ان کے آثار ونقوش بکھرے ہوئے ملتے ہیں۔ دیوبند میں ایک مستقل ادارہ ان کی تحریروں کو شائع کرتا تھا۔ مگر ان کی تقریریں ابھی بڑی تعداد میں غیر محفوظ اور غیر مطبوعہ ہیں جن کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر انہیں جلد شائع کرنا چاہئے۔ مولانا مرحوم کی تقریریں بڑی مدلل، حکیمانہ وفلسفیانہ، منظم اور مرتب ہوتی تھیں اور ان میں ایک مخصوص ومنفرد ربط وتسلسل پایا جاتا تھا۔ انہوں نے اس دور میں قدیم منطق وفلسفہ سے جس طرح کام لیا اور اس کو دینی علوم کا آلۂ کار بنایا وہ پرانے دینی مدارس کے علماء وفضلاء کے لئے ایک اچھا نمونہ ہے۔ مولانا مرحوم کی ایسی ہی تقریروں میں ’’ختم نبوت‘‘ سورۃ الکوثر کی روشنی میں بھی ہے جو شائع ہورہی ہے۔ اس میں بھی مولانا کی مسلمہ علمیت وذہانت، قوت استدلال اور حکیمانہ طرز بیان نمایاں ہے اور یہی حال تقریباً تمام تقریروں کا ہے۔
عزیزگرامی مولوی شعیب ادریس صاحب ہم سب کے شکریہ اور تحسین کے مستحق ہیں کہ جناب صوفی عبدالرحمن صاحب کی نگرانی وسرپرستی میں مولانا مرحوم کی تقریروں کو کتابی شکل میں شائع کررہے ہیں اور اس طرح ان بیش قیمت علمی ودینی مواعظ کی حفاظت واشاعت کا مبارک کام انجام دے رہے ہیں اور ایک ایسے دینی سرمایہ کو از سرنو منظر عام پر لارہے ہیں جو زمانے کے دستبرد سے ضائع اور تلف ہونے کے قریب تھا۔ فقہی اصطلاح میں انہوں نے ’’احیائے اموات‘‘ کا جو قابل قدر کام انجام دیا ہے۔ اس کے لئے وہ انشاء اﷲ! خدا کے نزدیک ماجور اور خلق خدا کی طرف سے مشکور ہوں گے۔
مخلص…(مخدومنا حضرت مولانا) سیدابوالحسن علی ندویؒ…لکھنؤ ۱۱؍شوال المکرم ۱۴۰۴ھ