مولانا حافظ محمد احمد صاحبؒ جیسے یکتائے زمانہ اساتذہ سے شرف تلمذ حاصل رہا۔ اس کے علاوہ حضرت مولانا خلیل احمد صاحبؒ سہارنپوری اور مولانا عبداﷲ صاحبؒ انصاری نے خصوصی سندوں سے بھی سرفراز فرمایا۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد دارالعلوم ہی میں تدریس سے منسلک ہوگئے، مختلف علوم وفنون کی کتابیں بڑی شان سے اور حق ادا کرکے پڑھائیں اور یہ سلسلہ آخر تک بے پناہ مصروفیات کے باوجود جاری رہا۔
۱۳۴۰ء میں نیابت اہتمام کا عہدہ تفویض کیا گیا اور حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحبؒ کے انتقال کے بعد ۱۳۴۸ھ میں دارالعلوم کے سالانہ اخراجات پچاس ہزار اور عملہ صرف ۴۵ افراد پر مشتمل تھا۔ بعد میں آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے ذریعہ اس دارالعلوم کو ایک بین الاقوامی یونیورسٹی بنا دیا۔ آج دارالعلوم کی بیشتر عمارات حضرت ہی کے دور کی تعمیر شدہ ہیں۔
دارالعلوم اور مسلک دارالعلوم کے تعارف کے سلسلہ میں اندرون ملک اور بیرونی ممالک کے بے شمار اسفار کئے۔ برصغیر کا شاید ہی کوئی ایسا علاقہ ہو جہاں حضرت کے قدم نہ پہنچے ہوں۔ اس کے علاوہ ایشیاء کے دیگر ممالک افریقہ، یورپ اور امریکہ وغیرہ کے بھی متعدد تبلیغی دورے فرمائے۔ ۱۳۵۸ھ میں دارالعلوم کے نمائندہ کے طور پر افغانستان کا دورہ فرمایا۔ جہاں آپ کا شاہانہ استقبال کیا گیا۔ دارالعلوم کے لئے یہ دورہ بہت مفید رہا۔ جسکا ثبوت دارالعلوم کا عظیم الشان دروازہ باب الظاہر ہے جو شہنشاہ افغانستان ظاہر شاہ کے عطیہ سے تعمیر کیا گیا۔ اسی طرح ۱۳۳۵ھ میں ہندوستان کے ایک مؤقروفد کی قیادت کرتے ہوئے حجاز کا دورہ فرمایا، اور سلطان ابن سعودؒ کے دربار میں تقریر فرمائی، سلطان بہت متاثر ہوئے اور خلعت شاہانہ سے نوازا۔ حضرت کا طرز خطابت منفرد، اثر انگیز اور دل پذیر ہوتا تھا۔ سبھی اس کے معترف ہیں۔۱۹۴۸ء میں مولانا ابوالکلام آزادؒ کی زیر صدارت لکھنو میں نیا نظام تعلیم رائج کرنے کے لئے ایک اجلاس ہوا، جس میں ملک کے بڑے بڑے زعماء لیڈران اور ماہرین تعلیم جمع ہوئے۔ جمعیۃ العلماء کے رہنما مولانا حسین احمد مدنی رحمتہ اﷲ علیہ وغیرہ بھی شریک تھے۔ اس میں بیشتر مقررین نے نئے نظام تعلیم کی حمایت میں تقریریں کیں اور واقعی حضرتؒ نے حق ادا کردیا خود مولانا آزادؒ جیسے شعلہ بیاں مقرر بھی حضرت کی مدلل تقریر سے بہت متأثر ہوئے اور سبھی نے خراج تحسین پیش کیا۔