ان میں اولاً چند دفعات میں خاتم النبیین کے دین کا تفوق وامتیاز دوسرے ادیان پر دکھلایا گیا ہے۔
پھر چند نمبروں میں طبقہ انبیاء علیہم السلام کے کمالات و کرامات اور معجزات پر خاتم النبیینﷺ کے کمالات وکرامات اور معجزات کی فوقیت دکھلائی گئی۔
پھر چند نمبروں میں خصوصی طور پر نام بنام حضرات انبیاء علیہم السلام کے خصوصی احوال وآثار اور مقامات پر حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کے احوال وآثار اور مقامات کی عظمت واضح کی گئی ہے۔
پھر چند شماروں میں اور انبیاء کی امتوں پر امت خاتم کی عظمت وبرگزیدگی واضح کی گئی ہے۔ جس سے آنحضرت ﷺ کی ہر جہتی وفوقیت کاملیت وجامعیت، اولیت وآخریت روز روشن کی طرح کھل کر سامنے آجاتی ہے جو آپ کی خاتمیت کے آثار ولوازم ہیں۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ شانہ کو آپ کی خاتمیت کے اثبات میں کس درجہ اہتمام ہے کہ ختم نبوت کا دعویٰ قرآن کریم میں کرکے سینکڑوں سے متجاوز احادیث میں ختم نبوت کے دلائل وآثار اور شواہد ونظائر شمار کرائے گئے ہیں جن میں سے چند کا انتخاب ان مختصر اوراق میں پیش کیا گیا۔ بس ختم نبوت سے متعلق پہلی قسم کی آیات وروایات پر مشتمل کتابیں دعوائے ختم نبوت کے نمونے اور خصوصیات نبوت کے شواہد ونظائر پیش کئے گئے ہیں۔
دلائل ختم نبوت کی کتاب کہی جائے گی۔ جس سے صاف روشن ہوجاتا ہے کہ ختم نبوت کا مسئلہ اسلام میں سب سے زیادہ اہم‘ سب سے زیادہ بنیادی اور اساسی مسئلہ ہے۔ جس پر اسلامی شریعت کی خصوصیت کی بنیاد قائم ہے اگر اس مسئلہ کو تسلیم نہ کیا جائے یااس میں کوئی رخنہ ڈال دیا جائے تو اسلامی خصوصیت کی ساری عمارت آپڑے گی اور مسلم کے ہاتھ میں کوئی خصوصی خر مہرہ باقی نہ رہے گا جس سے وہ اسلام کو دنیا کی ساری اقوام کے سامنے پیش کرنے کا حق دار بنا تھا۔
نیز نبی کریمﷺ اس کے بغیر قابل تسلیم ہی نہیںبن سکتے کہ ختم نبوت کو تسلیم کیا جائے کہ اس پر خصوصیات نبوی کی عمارت بھی کھڑی ہوئی ہے۔
پس اس مسئلہ کا منکر درحقیقت حضورﷺ کی فضیلت کا منکر اور اس مسئلہ کو مٹا دینے کا ساعی، حضور اکرمﷺ کے امتیازی فضائل کو مٹا دینے کی سعی میں لگا ہوا ہے۔
اس لئے جو طبقات بھی ختم نبوت کے منکر ہیں۔ خواہ صراحتاً اس کے منکر ہوں یا تاویل