ض… ’’یایہا الناس لا نبی بعدی لا امۃ بعدکم (مسند احمد، کنزالعمال ج۵ ص۲۹۴)‘‘ {اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔}
(یعنی میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔ یہی وہ خاتمیت ہے )
آپ ﷺ اپنی مسجد کے بارے فرمایا جو حدیث عبداﷲ بن ابراہیم میں ہے کہ :
ض… ’’فانی آخر الانبیاء مسجدی آخر المساجد (مسلم)‘‘ {میں خاتم الانبیاء ہوں اور میری مسجد آخر المساجد ہے۔ (وہی آپﷺ کی خاتمیت مسجد میں آئی)}
حدیث عائشہؓ میں یہ دعویٰ خاتمیت کے الفاظ کے ساتھ ہے۔ ’’انا خاتم الانبیاء ومسجدی خاتم مساجد الانبیاء (کنزالعمال ج۱۲ ص۲۷۰)‘‘
اور جب کہ آپﷺ کی آوردہ کتاب (قرآن) ناسخ الادیان اور ناسخ الکتب ہے تو یہی معنی اس کے خاتم الکتب ہونے کے ہیں۔ کیونکہ ناسخ ہمیشہ آخر میں اور ختم پر آتا ہے اور اسی لئے آپﷺ کو دعوت عامہ دی گئی کہ دنیا کی ساری اقوام کو آپﷺ اﷲ کی طرف بلائیں۔ کیونکہ اس دین کے بعد کوئی دین کسی خاص قوم یا دنیا کی کسی بھی قوم کے پاس آنے والا نہیں جس کی دعوت آنے والی ہوتو اسی ایک دین کی دعوت عام ہوگئی کہ وہ خاتم الادیان اور آخر ادیان ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ساری خاتمیتیں درحقیقت آپﷺ کی ختم نبوت کے آثار ہیں۔
خاتمیت سے جامعیت نکلی تو یہ تمام چیزیں جامع بن گئیں اور جامعیت سے آپﷺ کی مصدقیت کی شان پیدا ہوئی جو ان سب چیزوں میں آتی چلی گئی۔ قرآن کو ’’مصدق لما معکم‘‘ کہا گیا امت کو بھی مصدق انبیاء بنایا گیا کہ سب اگلے پچھلے پیغمبروں پر ایمان لائو۔ دین بھی مصدق ادیان ہو۔
یہی وہ سیرت نبوی ہے جامع اور انتہائی نقاط ہیں جن سے یہ سیرت مبارک تمام سیر انبیاء علیہم السلام پر حاوی وغالب اور خاتم السیر ثابت ہوئی۔ اسی لئے آپ کی سیرت کا بیان محض کمال کا بیان نہیں بلکہ امتیازی کمالات اور ان کے بھی انتہائی نقاط کا بیان ہے جو اسی وقت ممکن ہے کہ آپﷺ کی ختم نبوت کو مانا جائے کہ یہ امتیازات اور امتیازی کمالات مطلق نبوت کے آثار نہیں بلکہ ختم نبوت کے آثار ہیں۔ کیونکہ ختم نبوت خو د ہی نفس نبوت سے ممتاز اور افضل ہے۔ کہ سرچشمہ نبوات ہیں۔ اس لئے اس کے امتیازی آثار بھی مطلق آثار نبوت سے فائق اور افضل ہونے ناگزیر تھے۔ پس سیرت خاتمیت کے چند نمونے ہیں جو اس مختصر سی فہرست میں پیش کئے گئے ہیں۔ جن کا عدد ( ۱۱۳) ہوتا ہے۔