کے راستہ سے۔ دین کے اس بدیہی اور ضروری مسئلہ کے انکار پر آئیں۔ ان کا اسلام سے شریعت اسلام اور پیغمبر اسلام سے کوئی تعلق نہیں مانا جاسکتا اور نہ وہ اسلامی برادری میں شامل سمجھے جاسکتے ہیں۔ جس طرح سے توحید کا منکر قولی ہو یا مصرح، اسلام سے خارج اور اس سے بے واسطہ ہے اسی طرح سے ختم رسالت کا منکر قولی ہو یا مصرح، اسلام سے خارج اور اس سے بے واسطہ ہے اسی طرح سے ختم رسالت کا منکر خواہ انکار سے ہو یا تاویل سے۔ اسلام سے خارج مانا جاوے گا۔ کیونکہ وہ صرف کسی ایک مسئلہ کا منکر نہیں بلکہ اسلام کے سارے امتیازات، سارے ممتاز فضائل، ساری ہی خصوصیات اور صدہا دینی روایات کا منکر ہے جن کا قدر مشترک توازن کی حد سے نیچے نہیں رہتا۔
بہرحال ختم نبوت کے درخشاں آثار اور حضرت خاتم النبیینﷺ کے خصوصی شمائل وفضائل یا بالفاظ دیگر آپﷺ کی خاتمیت کے ہزاروں وجوہ دلائل میں سے یہ چند نمونے ہیں جنہیں آپﷺؓ خاتم النبیین کی تفسیر اور تشریح کے طور پر پیش کیا گیا۔ یہ مختصر رسالہ سیرت خاتم النبیینﷺ نہیں بلکہ سیرت خاتمیت کی چند موٹی موٹی سرخیوں کی ایک مختصر سی فہرست ہے۔ جس کے نیچے اس بلند پایہ سیرت کی امتیازی حقائق وتفصیلات پیش کی جاسکتی ہیں۔ اگر ان روایات کی روشنی میں سیرت خاتمیت کی ان تفصیلات اور ان کے مالہ وماعلیہ کو کھولا جائے۔ تو بلاشبہ محدثانہ اور متکلمانہ رنگ کی ایک نادر سیرت مرتب ہوسکتی ہے۔ جو تاریخی رنگ کی تو نہ ہوگی اور تاریخ محض سیرت بھی نہیں۔ بلکہ پیغمبرانہ مقامات اور خاتمانہ امتیازات کی حامل محدثانہ رنگ کی سیرت ہوگی جو اپنے ر نگ کی ممتاز سیرت کہلائی جائے گی۔
میں نے اس مختصر مضمون میں اس وقت صرف عنوانات سیرت کی نشاندہی کا فرض انجام دیا ہے۔ شاید کسی وقت ان تفصیلات کے پیش کرنے کی توفیق میسر ہوجائے جو ابھی تک ذہن کی امانت بنی ہوئی ہیں۔ جن سے حضرات انبیاء علیہم السلام کے متفاوت درجات ومراتب اور خاتمیت کے انتہائی درجات ومراتب کا فرق اور تفاضل باہمی بھی کھل کر سامنے آسکتا ہے۔ جس کی طرف ’’تلک الرسل فضلنا بعضہم علی بعض‘‘ میں اشارہ فرمایا گیا ہے۔
مولا ی صلّ وسلم دائما ابداً
علی حبیبک خیر الخلق کلہم
محمد طیب غفرلہ، مدیر دارالعلوم دیوبند
۱۷؍شعبان ۱۳۷۷ھ (یوم الاحد)