بلکہ اگر وہ اپنے ادیان کی حفاظت چاہتے ہیں تو اب بھی انہیں اسلام ہی کا دامن سنبھالنا چاہئے۔ کیونکہ اسلام ہی نے ان ادیان کو تابحد اصلیت اپنے ضمن میں سنبھال رکھا ہے۔ اگر وہ اپنے ادیان کی موجودہ صورتوں پر جمے رہتے ہیں تو اول تو وہ بے سند ہیں۔ ان کی کوئی حجت سامنے نہیں، اسلام ان کی سند تھا۔ تو اسے انہوں نے اختیار نہیں کیا۔
اسلام سے ہٹ کر دو سرے مذاہب میں دین کی سند استناد کا کو ئی سسٹم ہی نہیں جس سے ان کی اصلیت کا پتہ نشان لگ سکے اور ظاہر ہے کہ بے سند بات پر بحث نہیں ہوسکتی اور اگر کسی حد تک کوئی اپنی سلامی ٔ فطرت سے اصلیت کا کوئی سراغ نکال بھی لے تو زیادہ سے زیادہ وہ ایک جزئی، قومی اور مقامی دین کا پیرو رہا جو آج کے بین الاقوامی، بین الاوطانی اور عمومیت وکلیت کے دور میں چل نہیں سکتا۔ اسی لئے ارباب ادیان ایسے دینوں میں ترمیمات کے مسودے لارہے ہیں اور آئے دن اس قسم کی خبروں سے اخبارات کے کالم بھرے رہتے ہیں۔
البتہ اگر وہ اسلام سنبھال لیں تو اس پر چلنا درحقیقت تمام ادیان پر چلنا ہے اور وہ ہر دین کی جتنی واقعی اصلیت ہے اسے تھامے رہنا ہے اس لئے نفس دین کا تھامنا ضروری ہو تب اور اپنے اپنے ادیان کا تھامنا ضروری ہے۔ تب بہردو صورت اسلام ہی کا تھامنا عقلاً اور نقلاً ضروری نکلتا ہے۔
بہرحال نبی کریم ﷺ کے خاتم النبیین ہونے سے آپﷺ کی لائی ہر چیز شریعت۔ کتاب، قوم، امت ، اصول قواعد اور احکام وغیرہ ساری چیزیں خاتم ٹھہرتی ہیں۔ اسی لئے جس طرح آپ کو خاتم النبیین فرمایا گیا اس طرح آپ کے دین کو خاتم الادیان بتایا گیا۔ ارشاد ربانی ہے۔
ض… ’’الیوم اکملت لکم دینکم‘‘ {آج کے دن میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا۔
اورظاہر ہے کہ اکمال اور تکمیل دین کے بعد نئے دین کا سوال پیدا نہیں ہوسکتا اس لئے یہ کامل دین ہی خاتم الادیان ہوگا کہ کوئی تکمیل طلب ایسے ہی آپﷺ کی امت کو خاتم الامم کہا گیا جس کے بعد کوئی امت نہیں۔ حدیث قتادہؓ میں ہے ۔
ض… ’’نحن اخرہا وخیرہا (درمنثور)‘‘ {ہم (امتوں میں ) سب سے آخر ہیں اور سب سے بہترہیں۔}
حدیث ابی امامہ میں ہے: