پس جب کہ ادیان سابقہ کی اصلیت اسلام کے سہارے تھمی ہوئی ہے تو ادیان سابقہ اس کے محتاج ثابت ہوئے اور وہ ان کے لحاظ سے غنی رہا۔ اور ظاہر ہے کہ محتاج غنی پر غالب نہیں ہوتا۔ بلکہ غنی محتاج پر غالب ہوتا ہے۔ اس لئے اسلام کا غلبہ اس قومیت کے سلسلہ سے تمام ادیان پر نمایاں ہوجاتا ہے۔
ض… ’’ہو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ‘‘ {اﷲ ہی وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس اسلامی دین کو تمام دینوں پر غالب فرمائے۔ }
پس اسلام کا غلبہ جہاں حجت وبرہان سے اس نے دکھلایا۔ جہاں تیغ وسنان سے اس نے دکھلایا۔ جو باہر کی چیزیں ہیں وہیں خود دین کی ذات سے ہی دکھلایا اور وہ اس کی عمومیت، قیومیت اور مصدقیت عام ہے جس سے اس نے روح بن کر ادیان کو سنبھال رکھا ہے۔ جس سے اس دین کا بین الاقوامی دین ہونا بھی واضح ہوجاتا ہے۔ بہرحال اسلام والے تو اس لئے اسلام کی قدر کرتے ہیں کہ وہ کامل‘ جامع مصدق عالمگیر دین اور روح ادیان عالم ہے جو انہیں پشتینی طور پر ہاتھ لگ گیا ہے۔
اور غیر مسلم اس لئے اس کی طرف بڑھیں اور اس کی قدر پہچانیں کہ آج کی ہمہ گیر دنیا میں اول تو جزوی اور مقامی ادیان چل نہیں سکتے۔ جیسا کہ مشاہدہ میں آرہا ہے کہ ہر ایک مذہب کو یا منظر عام سے ہٹ کر چھپنے کے لئے پہاڑوں اور غاروں کی پناہ لینی پڑتی ہے اور یا باہر آکر زمانہ کے تقاضوں کے مطابق اپنے اندر ترمیمیں کرنی پڑرہی ہیں اور وہ بھی اسلام ہی سے لے کر تاکہ دنیا میں اس کے گاہگ باقی رہیں۔ مگر ان میں سے کوئی چیز بھی ان ادیان کے محدود اور مقامی اور محض قومی ہونے کو نہیں چھپا سکتی۔
ان کے پیوندوں سے خود ہی پتہ چل جاتا ہے کہ لباس کو نمائش کی حد تک صحیح دکھلانے اور جاذب نظر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس لئے ان قومیتوں کی حد بندیوں کے مذاہب سے دلوں کی توجہ ہٹتی جارہی ہے۔ جیسا کہ مشاہدہ میں آرہا ہے۔ اندریں صورت تقاضائے دانش وبنیش اور مقتضائے فطرت صرف یہ ہے کہ اجزاء سے ہٹ کر کل اور مجموعہ کو اپنایا جائے جس کے ضمن میں یہ جزوی دین اپنی اصلیت کی حد تک خود بخود آجائیں اور ظاہر ہے کہ جب اصلیت کی حد تک اسلام نے تمام شرائع اور ادیان کو اپنے ضمن میں لے رکھا ہے تو اسلام قبول کرنے والے ان ادیان سے بھی محروم نہیں رہ سکتے۔