معرفت پر نہیں۔ حالانکہ مذہب نام اقرار کا ہے۔ انکار کا نہیں۔ ایمان نام معرفت کا ہے جہالت کا نہیں۔ دین نام محبت کا ہے۔ عداوت کا نہیں۔ پس تسلیم واقرار، تعظیم وتوقیر، علم ومعرفت اور ایمان ودین کا کارخانہ سنبھلا ہوا ہے تو صرف اسلام ہی سے سنبھلا ہوا ہے۔
اور اسی کی تسلیم عام اور تصدیق عام کی بدو لت تمام مذاہب کی اصلیت اور توقیر محفوظ ہے۔ ورنہ اقوام دنیا نے مل کر تعصبات کی راہوں سے اس کارخانہ کو درہم برہم کرنے میں کوئی کسر اٹھا کر نہیں رکھی۔ بنا بریں اسلام کے ماننے والے تو اس لئے اسلام کی قدر پہچانیں اور اسے دستور زندگی بنائیں کہ اﷲ نے انہیں تعصبات کی دلدل سے دور رکھ کر دنیا کی تمام قوموں، امتوں اور ان کے تمام مذاہب اور شریعتوں کا رکھوالا اور محافظ بنایا اور ان میں سے شور وغش کو الگ دکھا کر اصلیت کا راز داں تجویز کیا۔
دوسرے ان کا اقرار وتسلیم صرف ان ہی کی شریعت تک محدود نہیں بلکہ شاخ در شاخ بنا کر دنیا کی تمام شریعتوں تک پھیلا دیا جس سے اگر ایک طرف ان کے دین کی وسعت وعمومیت اور جامعیت نمایاں کی جو خود دین والوں کی جامعیت اور وسعت کی دلیل ہے تو دوسری طرف اسلامی دین کا غلبہ بھی تمام ادیان پر پورا کردیا۔ جس کی قرآن نے ’’لیظہرہ علی الدین کلہ‘‘ (تاکہ اسلامی دین کو اﷲ تمام دینوں پر غالب فرمائے) خبر دی تھی۔
کیونکہ غلبہ دین کی اس سے زیادہ نمایاں اور واضح دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ دین اسلام تمام ادیان کا مصدق بن کر ان میں روح کی طرح دوڑا ہوا انہیں تھامے ہوئے ہے‘ ان کا قیوم اور سنبھالنے والا ہے۔ اور اسی کے دم سے ان کی تصدیق وتوثیق باقی ہے ورنہ اقوام عالم تو مذاہب کی تردید وتکذیب کرکے انہیں لاشے محض بنا چکی تھیں۔ ’’وقالت الیہود لیست النصاریٰ علی شئی۔ وقالت النصاریٰ لیست الیہود علی شئی‘‘(یہود نے کہا کہ نصارا لاشے محض ہیں اور نصاریٰ نے کہا کہ یہود لاشی ٔ محض ہیں) اور اس طرح ہر قوم اپنے سوا دوسرے مذاہب کو تردید وتکذیب سے دفن کرچکی تھی۔ مصدق عام اور قیوم عمومی بن کر تو اسلام ہی آیا جس نے ہر مذہب کی اصلیت نمایاں کرکے اس کی تصدیق کی اور اسے باقی رکھا جس سے، مذاہب سابقہ اپنا دورہ پورا کردینے کے بعد بھی دلوں اور ایمانوں میں محفو ظ رہے اور کون نہیں جانتا کہ کسی چیز کا سنبھالنے اور تھامنے والا ہی اس چیز پر غالب ہوتا ہے، جسے وہ تھام رہا ہے۔ ورنہ بلا غلبہ کے تھامتا کیسے؟ اور تھمی شے تھامنے والے کے سامنے مغلوب اور ضعیف ہوتی ہے۔ ورنہ اسے تھامنے والے کے سہارے کی ضرورت کیوں پڑتی؟