کے حق میں آپﷺ کے مصدق ہونے کی شان نمایاں تر ہوجاتی ہے اور واضح ہوجاتا ہے کہ ’’اسلام‘‘ اقرار شرائع کا نام ہے۔ انکار شرائع کا نہیں۔ تصدیق مذاہب کا نام ہے۔ تکذیب مذاہب کا نہیں۔ توقیر ادیان کا نام ہے۔ تحقیر ادیان کا نہیں۔ تعظیم مقتدایان مذاہب کا نام ہے۔ توہین مقتدایان کا نام نہیں۔
اس کا قدرتی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسلام کا ماننا درحقیقت ساری شریعتوں کا ماننا اور اس کا انکار ساری شریعتوں کا انکار ہے اور اسلام آجانے کے بعد اس سے منکر درحقیقت کسی بھی دین وشریعت کے مقر تسلیم نہیں کئے جاسکتے۔
اس بناء پر اگر ہم دنیا کے سارے مسلم اور غیر مسلم افراد سے یہ امید رکھیں کہ وہ حضرت خاتم النبیینﷺ کی اس جامع وخاتم سیرت کے مقامات کو سامنے رکھ کر اس آخری دین کو پوری طرح سے اپنائیں اور اس کی قدروعظمت کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں تو یہ بے جا آرزو نہ ہوگی۔ مسلمانوں سے تو اس لئے کہ حق تعالیٰ نے انہیں اسلام دے کر دین ہی نہیں دیا بلکہ سرچشمہ ادیان دے دیا اور ایک جامع شریعت دے کر دنیا کی ساری شریعتیں ان کے حوالہ کردیں۔ جب کہ وہ سب کی سب شاخ در شاخ ہوکر اسی آخری شریعت سے نکل رہی ہیں جس سے مسلمان بیک وقت گویا سارے ادیان وشریعت پر عمل کرنے کے قابل اور اس جامع عمل سے اپنے لئے جامعیت کا مقام حاصل کرنے کے قابل بنے ہوئے ہیں۔ اور اس طرح وہ ایک دین نہیں بلکہ تمام ادیان عالم پر مرتب ہونے والے سارے ہی اجر وثواب اور درجات ومقامات کے مستحق ٹھہر جاتے ہیں۔
اندریں صورت اگر ہم یو ں کہیں تو خلاف حقیقت نہ ہوگا۔ اگر وہ صحیح معنی میں عیسائی، موسائی، ابراہیمی اور نوحی بھی ہیں کہ آج انہی کے دم سے سچی نوحیت، ابراہیمیت، موسائیت اور عیسائیت دنیا میں زندہ ہے جب کہ بلا استثناء ان سب کے ماننے اور ان کی لائی ہوئی شرائع کو سچا تسلیم کرنے کی روح انہوں نے ہی دنیا میں پھونک رکھی ہے بلکہ اپنی جامع شریعت کے ضمن میں ان سب شریعتوں پر عمل پیرا بھی ہیں۔ ورنہ آج ابراہیم کے ماننے والے براہمہ اپنے کو اس وقت تک براہمہ نہیں سمجھتے جب تک کہ وہ حضرت موسیٰ وعیسیٰ ومحمد علیہم السلام کی تکذیب وتوہین نہ کرلیں۔
اسی طرح آج کی عیسائیت کو ماننے والے بزعم خود اپنی عیسائیت کو اس وقت تک برقرار نہیں رکھ سکتے جب تک کہ وہ محمدیت کی تکذیب نہ کرلیں۔ گویا ان کے مذاہب کی بنیاد ہی تکذیب پر ہے۔ تصدیق پر نہیں۔ انکار پر ہے اقرار پر نہیں۔ توہین پر ہے توقیر پر نہیں۔ جہالت پر ہے