شان مصدقیت ہے کہ آپﷺ سابقین کی ساری شریعتوں اور ان کی لائی ہوئی ساری کتابوں کے تصدیق کنندہ ثابت ہوتے ہیں۔ جس کا دعویٰ قرآن حکیم نے فرمایا ہے۔
ض… ’’ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم‘‘ {پھر تمہارے پاس (اے پیغمبران الٰہی) وہ عظیم رسولﷺ آجائیں جو تمہارے ساتھ کی ہر چیز۔}
سماوی کتب نبوت، معجزات تعلیمات وغیرہ کے تصدیق کنندہ ہوں (تو تم ان پر ) ایمان لانا اور ان کی نصرت کرنا۔ اور فرمایا:
ض… ’’بل جاء بالحق مصدق المرسلین‘‘ {بلکہ محمدﷺ آئے اور رسولوں کی تصدیق کرتے ہوئے۔}
وجہ ظاہر ہے کہ جب آپ کی شریعت میں تمام پچھلی شریعتیں جمع ہیں اور آپ کی لائی ہوئی کتاب (قرآن) میں تمام پچھلی کتب سماویہ مندرج ہیں تو ان کی تصدیق خود اپنی تصدیق ہے۔ جس کی بناء سورج کی مثال سے کھل چکی ہے کہ جیسے ہر انتہاء میں اس کے ابتدائی مراتب جمع ہوجاتے ہیں۔ ویسے ہی وہ سارے ابتدائی مراتب نکلتے بھی اس انتہائی مرتبہ سے ہیں۔
اس لئے سابق شریعتیں در حقیقت اس انتہائی شریعت کے ابتدائی مراتب ہونے کے سبب اسی میں سے نکلی ہوئی مانی جاویں گی ورنہ یہ شریعت انتہائی اور وہ ابتدائی نہ رہیں گی جو مشاہدہ اور عقل ونقل کیخلاف ہے۔ وہ اپنی جگہ مسلم شدہ ہے۔ پس اس جامع شریعت کی تصدیق کے بعد ممکن ہی نہیں کہ ابتدائی شریعتوں کی تصدیق نہ کی جائے بلکہ خود اس مصدقہ شریعت میں جمع شدہ ہیں۔ ورنہ خود اس شریعت کی تصدیق بھی باقی نہ رہے گی۔ اس لئے جب یہ آخری اور جامع شریعت آپ کے اندر سے ہوکر نکلی تو سابقہ شریعتیں بھی بالواسطہ آپ ہی کے اندر سے ہوکر آئی ہوئی تسلیم کی جاویں گی۔
’’وانہ لفی زبر الاولین‘‘ اور یہ قرآن پچھلوں کی کتابوں میں بھی (لپٹا ہوا موجود تھا) اس لئے اس شریعت کی تصدیق کے لئے پچھلی شریعتوں کی تصدیق ایسی ہی ہوگی جیسے اپنے اجزاء واعضاء کی تصدیق اور ظاہر ہے کہ اپنے اعضاء واجزاء اور بالفاظ دیگر خود اپنی تکذیب کون کرسکتا ہے؟
ورنہ یہ معاذ اﷲ خود اپنی شریعت کی تکذیب ہوجائے گی۔ جب کہ یہ ساری شریعتیں اسی آخری شریعت کے مبادی ومقدمات اور ابتدائی مراتب تھے۔ تو کل کی تصدیق کے اس کے تمام صحیح اجزاء کی تصدیق ضروری ہے ورنہ وہ کل کی ہی تصدیق نہ رہے گی۔ اس لئے سارے پچھلے ادیان