یعنی آپﷺ کی خاتمیت کا اثر آپﷺ کے سارے ہی کمالات وآثار میں رچا ہوا ہے۔ پس یہ امتیازی خصوصیت محض نبوت کے اوصاف نہیں بلکہ ختم نبوت کی خصوصیات ہیں۔ اس لئے جیسے آپﷺ تمام انبیاء میں ختم نبوت کے مقام سے ممتاز اور افضل ہیں۔ ایسے ہی آپﷺ کی یہ خاتمیت کی ممتاز سیرت تمام انبیاء علیہم السلام کی سیرتوں سے ممتاز اور افضل ہے۔ چنانچہ خود حضورﷺ نے بھی ختم نبوت اور خاتمیت کو اپنی خصوصیات میں شمار فرمایا۔ حدیث ابو ہریرہؓ میں آپﷺ نے جہاں اپنی چھ امتیازی خصوصیات جوامع الکلم اور غیرمعمولی رعب وغیرہ ارشاد فرمائی۔ وہیں انمیں سے ایک خصوصیت یہ بھی فرمائی کہ: ’’وختم بی النبییون‘‘ (بخاری ومسلم)’’مجھ سے نبی ختم کردئیے گئے۔‘‘
اس کا قدرتی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حضورﷺ کی یہ خصوصیت اور ممتاز سیرت ختم نبوت کے تسلیم کئے بغیر زیر تسلیم نہیں آسکتی۔ ان خصوصی فضائل کو وہی مان سکے گا جو ختم نبوت کو مان رہا ہو۔ ورنہ ختم نبوت کا منکر درحقیقت ان تمام فضائل وکمالات اور خصوصیت نبوی کا منکر ہے۔ گو زبان سے وہ حضورﷺ کی افضلیت کا دعویٰ کرتا رہے۔
مگر یہ دعویٰ ختم نبوت کے انکار کے ساتھ زمانہ سازی اور حیلہ سازی ہوگا۔ بہر حال حضورﷺ کے کمالات کے دائرہ میں ہر کمال کا یہ انتہائی نقطہ نبوت کی خاتمیت کا اثر ہے نہ محض نبوت کا۔
اس سے یہ اصولی بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ شے کی انتہا میں اس کی ابتداء لپٹی ہوئی ہے اور کمالات کے ہر انتہائی نقطہ میں اس کے تمام ابتدائی مراتب مندرج ہوتے ہیں۔ سورج کی روشنی سارے عالم میں درجہ بدرجہ پھیلی ہوئی ہے۔ جس کے مختلف اور متفاوت مراتب ہیں۔ لیکن اس کے انتہائی مرتبہ نور میں اس کے ابتدائی نور کے تمام مراتب کا جمع رہنا قدرتی ہے۔ مثلاً اس کے نور کا ادنیٰ درجہ ضیاء اور چاندنا ہے جو بند مکانوں میں بھی پہنچا ہوا ہوتا ہے۔
اس سے اوپر کا مرتبہ دھوپ ہے جو کھلے میدانوں اور صحنوں میں پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔ جس سے میدان روشن کہلاتے ہیں۔ اس سے اوپر کا مرتبہ شعاعوں کا ہے جس کا باریک تاروں کی طرح فضائے آسمانی میں جال پھیلا ہوا ہوتا ہے اور فضا ان سے روشن رہتی ہے۔ اس سے بھی اوپر کا مرتبہ اصل نور کا ہے جو آفتاب کی ٹکیہ کے چوگر د اس سے لپٹا ہوا اور اس سے چمٹا ہوا ہوتا ہے جس سے آفتاب کا ماحول منور ہوتا ہے اور اس سے اوپر ذات آفتاب ہے جو بذات خود روشن ہے لیکن یہ ترتیب خود اس کی دلیل ہے کہ آفتاب سے نور صادر ہوا۔ نور سے شعاع برآمد ہوئی۔ شعاع سے