قبلہ کو اپنے ہی وطن (یعنی فلسطین کو بھی فتح کرنے سے جی چھوڑ بیٹھے اور صاف کہہ دیا) ’’اذہب انت وربک فقاتلا انا ہہنا قاعدون‘‘ (موسیٰ علیہ السلام! تو اور تیرا پروردگار لڑلو ہم تو یہیں بیٹھے ہوئے ہیں (ہم سے یہ قتال وجہاد کی مصیبت نہیں سہی جاتی) اس امت کے بارے میں ہے کہ ہم نے تمہیں اے نبی! فتح مبین دی۔ (مکہ فتح ہوگیا) اور آیت میں ہے کہ اﷲ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ امت محمدیہﷺ کو زمین کی خلافت وسلطنت ضرور بخشے گا۔ چنانچہ حضورﷺ کے زمانہ میں پہلے مکہ فتح ہوا۔ پھر خیبر اور بحرین فتح ہوا۔ پھر پورا جزیرہ عرب کا اکثر حصہ فتح ہوا۔ پھر یمن کا پورا ملک فتح ہوا۔ پھر ہجوس کے مجوس سے خرید لیا گیا۔ اطراف شام وروم ومصر اسکندریہ وحبشہ پر اثرات قائم ہوئے کہ بادشاہ روم (قیصر) بادشاہ حبش (نجاشی) شاہ مصر واسکندریہ مقوش شاہان عمان وغیرہ نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں تحائف بھیج کر اپنی فرمانبرداری اور نیازمندی کا ثبوت دیا۔ پھر صدیق اکبرؓ خلیفۂ رسول اﷲﷺ نے جزیرہ عرب پورے کا پورا لے لیا۔ فارس پر فوج کشی کی۔ شام کے اہم علاقے بصریٰ وغیرہ فتح ہوئے۔ پھر فاروق اعظمؓ کے زمانہ میں پورا شام پورا مصر، فارس وایران اور پورا روم اور قسطنطنیہ فتح ہوا۔ پھر عہد عثمانی میں اندلس، قبرص، بلادقیران وستبہ اقصائے چین وعراق وخراسان، اہواز اور ترکستان کا ایک بڑا علاقہ فتح ہوا اور پھر امت کے ہاتھ پر ہندو، سندھ، یورپ وایشیاء کے بڑے بڑے ممالک فتح ہوئے۔ جن پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا اور بالآخر زمانہ آخر میں پوری دنیا پر بیک وقت اسلام کا جھنڈا لہرانے لگا۔ وعدہ امت کو دیا گیا۔ جو پورا ہوکر رہے گا جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے) تو صحابہ محمدیﷺ نے اپنے پیغمبر کی اطاعت کرتے ہوئے اپنے وطن (حجاز) کے ساتھ عالم کو فتح کرڈالا ’’انا فتحنا لک فتحا مبینا‘‘ کا ظہور ہوا اور ’’لیستخلفنہم فی الارض‘‘ کا وعدہ خداوندی پورا کردیا گیا۔ (القرآن الحکیم)
۱۰۵… اگر جنت میں ساری امتیں چالیس صفوں میں ہوں گی تو حضورﷺ کی تنہا امت اسی(۸۰) صفیں پائے گی۔ ’’اہل الجنۃ عشرون ومائۃ صف ثمانون منہا من ہذہ الامۃ واربعون من سائر الامم (ترمذی ودارمی بیہقی عن بریدہ)‘‘
۱۰۶… اگر اور امتوں کے صدقات اور انبیاء علیہم السلام کے خمس نذر آتش کئے جانے سے قبول ہوتے تھے جس سے امتیں مستفید نہیں ہوسکتی تھیں تو امت محمدیﷺ کے صدقات وخمس خود امت کے غرباء پر خرچ کرنے سے قبول ہوتے ہیں جس سے پوری امت مستفید ہوتی ہے۔ ’’وکانت